دوسری گول میز کانفرنس کا ایک منظر۔ فوٹو بشکریہ crisissome.blogspot.com

سید وسیم

علامہ اقبال پہلی گول میز کانفرنس (12 نومبر 1930 تا 19 فبروری 1931ء ) میں پنجاب کے وزیرِ اعلٰی سر فضل حسین کی مخالفت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے جبکہ جناح کی خواہش تھی ۔ 
دوسری گول میز کانفرنس (7 سپٹمبر 1931 تا یکم ڈسمبر 1931ء ) میں شرکت کا دعوت نامہ ملا اور اقبال 8 سپٹمبر 1931ء کو لاہور سے بمبئ کے لۓ روانہ ہوے ۔ 10 سپٹمبر کو بمبئ پہنچے خلافت ہاؤس میں قیام کیا ۔ اسی دن ظہرانہ سردار صلاح الدین سلجوقی قونصل افغانستان کے ساتھ کیا اور سہ پہر عطیہ فیضی کے عصرانہ میں شرکت کی ۔ 
12 سپٹمبر 1931ء کو ملوجا نامی جہاز سے انگلینڈ کے لۓ روانہ ہوۓ ۔ عدن میں ہندستانیوں نے آپ کی دعوت کی اسی طرح پورٹ سعید پر مصری نوجوان آپ سے ملنے جہاز پر آے ۔ ۔ اقبال 27 نسپٹمبر 1931ء کو انگلینڈ پہنچے ۔

اقبال گول میز کانفرنس کی اقلیتی کمیٹی کے رکن تھے جس کا اجلاس 28 سپٹمبر سے شروع ہوا اور 8 اکتوبر 1931ء کو اس کی ناکامی کا اعلان کردیا گیا گو کہ کانفرنس چلتی رہی لیکن اس میں اقبال نے کوئ تقریر نہیں کی ۔ 
اقبال لندن میں کافی مصروف رہے ۔ 21 نومبر 1931 کو اقبال لندن سے روم کے لۓ روانہ ہوگۓ اس سفر میں مولانا غلام رسول مہر آپ کے ساتھ تھے جو یکم نومبر کو انگلینڈ پہنچ گۓ تھے ۔ 
نواب محمد احمد سعید خاں چھتاری نے اپنی سوانح عمری ‘ یادِ ایام ‘ میں اقبال اور گول میز کانفرنس کے حوالے سے اپنی یاد داشتیں قلم بند کی ہیں 
” شروع ستمبر میں پھر ولایت کو روانہ ہوا ۔ اس بار میرے ہمراہ خان بہادر کیپٹن محمد رضا مرحوم تھے ۔ ہم پی ایچ او سے روانہ ہوۓ ملوجا جہاز کا نام تھا ۔ اسی جہاز سے سر علی امام اور لیڈی امام ، سر اقبال ، شفیع داودی بھی سفر کر رہے تھے ۔ یہ تین نۓ ممبر تھے جو پہلی کانفرنس میں شامل نہ تھے ۔ حافظ ہدایت حسین صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے ۔ 
یہ جہاز بہت بڑا اور آرام دہ تھا ۔ میں نے کیبن ڈی لکس لیا تھا جو بہت ہی کشادہ اور آرام دہ تھا حافظ ہدایت حسین مرحوم کو میں نے اپنے ہی کیبن میں لی لیا تھا ۔ 
یہ چند روز جو اس جہاز میں گزرے مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے ۔ ایسی پر لطف صحبتیں کہاں نصیب ہوتی ہیں ۔ ہر روز مختلف مسائل پر نۓ پہلو سے گفتگو ہوتی ۔ ہر روز ذہنی اور دماغی ترقی کا احساس ہوتا تھا ۔ ادبی اعتبار سے یہ صحبتیں بڑی بلند پایہ تھیں۔

 
سر محمد اقبال 
سر محمد اقبال کو کون نہیں جانتا ۔ شاعر کی حیثیت سے ان کا مرتبہ جتنا بلند ہے محتاجِ بیان نہیں ۔ ان کے کلام پر سینکڑوں مضامین اور مقالے لکھے جا چکے ہیں ۔ ان کا کلام خود ان کی زبان سے ہر روز سننا جہاز کی پر سکون فضا میں ایک ایسا پر کیف سماں ہوتا تھا کہ جس کا اندازہ فقط وہی حضرات کرسکتے ہیں جنہیں قدرت نے ذقوقِ سلیم عطا کیا ہے ۔ ہم سب ایک شعر بار بار سنتے اور لطف اندوز ہوتے ۔ اس زمانے کا ان کا کلام زیادہ تر فارسی زبان میں تھا ۔ ان کی گفتگو میں پنجابی تلفظ اور طرزِ ادا کی جھلک نظر آتی تھی ۔ 
ساڑھے نو بجے تک سر علی امام ، سر محمد اقبال ، حافظ ہدایت حسین ، شفیع داودی ( خدا ان سب کو جوارِ رحمت میں جگہ دے )اور میں ڈیک پر آرام کرسیاں لے کر بیٹھ جاتے ۔ کسی علمی ، سیاسی یا ادبی مضمون پر گفتگو شروع ہوجاتی ۔ لنچ تک یہ جلسہ رہتا ۔ پھر ہم سب ساتھ لنچ کھاتے اور کچھ دیر آرام کرتے ۔ 
اس بار ہم لوگ مارسیلز پر جہاز سے اترے ۔ وہاں سے پیرس کو گاڑی سہ پہر کو جاتی تھی ۔ سر محمد اقبال ، شفیع داودی اور حافظ ہدایت حسین مرحومین کی راۓ ہوئ کہ چونکہ ریل کی روانگی کے وقت میں دیر تھی شہر کی سیر کی جاۓ میں نے بڑی شد و مد سے تائید کی ۔ 
ہم ایک گائیڈ یا رہنما کو کے کر چلے ۔ یہ ضرور دشواری تھی کہ ہمارا گائیڈ انگریزی سے کچھ زیادہ واقف نہ تھا اور ہم لوگ فرانسیسی سے واقف نہ تھے ۔ منجملہ دوسرے مقامات کے ہم ایسی جگہ پہنچے کہ جہاں اسٹیج پر ایسی حیا پرسوز برہنگی دیکھی کہ مجھے سخت حیرت تھی کہ فرانسیسی جیسی متمدن اور مہذب قوم ایسی حرکتیں کیسے روا رکھتی ہے ۔ 
ہم فرانس سے کیلے ہوتے ہوۓ لندن پہنچے ۔ 
ایک روز رٹز ہوٹل میں مسلمانوں کی میٹنگ ہورہی تھی ۔ آغا خان اور دیگر ممبران موجود تھے کہ سر محمد اقبال مرحوم نے نہایت غصہ کے ساتھ ہزہائ نس سے کہا ۔ جس کا منشا یہ تھا کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو وزیرِ ہند سے ہماری تجویز کی اطلاع کرتے ہیں اور ہمارے جلسوں کا ہر راز وزیرِ ہند پر منکشف ہوجاتا ہے ۔ یہ الزام اتنا سخت تھا کہ تمام ممبران نے اس پر اصرار کیا کہ ایسے شخص کا نام ظاہر کیا جاۓ ۔ اس اصرار پر سر محمد اقبال مرحوم نے ایک صاحب کی طرف ( خدا انہیں غریقِ رحمت کرے ) اشارہ کرتے ہوۓ ایک نا ملائم لفظ کا استعمال کیا اور کہا ” یہ ——- جاکر کہتا ہے ” ۔ ان مرحوم پر کیا گزری وہ تو ان کا دل بتاسکتا تھا مگر تمام ممبران میں غصہ کے ساتھ شرمندگی کا بھی احساس تھا ۔ “

سید وسیم صاحب نطام آباد دکن سے تعلقل رکھتے ہیں، پیشہ سے لینڈ اسکیپنگ انجینئر ہیں اور ادب میں  گہری دلچسپی اور دقیق معلومات کے ساتھ فن تحریر میں بھی آپ کو ملکہ حاصل ہے

2 COMMENTS

  1. عالی وقار ایڈیٹر محترم
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ دیگر احوال۔۔۔۔۔ آپ نے میرا مضمون شائع کیا اس کے لئے میں بصد خلوص شکرگزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جدید نیوز ڈاٹ ان! پورٹل کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور آپ کو سلامت رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here