علامتی تصویر۔

ابو الفؤاد توحید احمد طرابلسی

 

اسلام ایک صالح معاشرہ کا بانی ہے، وہ معاشرے کے ہر فرد کو عزت سے نوازتا ہے، اور انھیں سماج میں اعلی مقام عطا کرتا ہے۔

اس عزت اور مقام کو فقط دولت مندی سے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلامی قوانین کی پاسداری لازمی ہے۔

پاکیزہ معاشرہ کے قیام کے لیے اسلام نے کئی قوانین وضع کیے ہیں، جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ}. [حجرات: 12]۔

اس آیت کریمہ کے اہم نکات یہ ہیں،

  • ایمان بالله تعالی،
  • بھت زیادہ بدگمانی سے اجتناب،
  • ایک دوسرے کی عدم تجسس،
  • غیبت سے پرہیز اور خوف خدا۔

زیر نظر تحریر نمبر تین سے متعلق ہے، جاسوسی کی کئی قسم ہے، ایک قسم وہ ہے جو حکومتی سطح پر ہوتی ہے، اور مشتبہ فرد کو زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔

یوں ہی عالمی پیمانے پر جاسوسی کا نظام پھیلا ہے، ایک ملک دوسرے ملک کے تجسس میں لگا رہتا ہے۔ تجسس کی ایک عوامی قسم بھی ہے، اس میں معاشرے کی اکثریت ملوث ہے، عام طور سے لوگوں کو اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا ہے، تجسس کی اس قسم کا نام “نظر کی بے احتیاطی” ہے۔

یہ قسم معاشرہ کے لیے ناسور بن چکی ہے، عوامی سطح پر اس گھناؤنے عمل کو اپنایا جا رہا ہے، تسکین نفس کے لیے راہ چلتے گھروں میں نگاہ دوڑائی جا رہی ہے، اور ایک دوسرے کے محرمات پر مطلع ہونے کے لیے مختلف حربے اپنائے جا رہے ہیں۔

یہ اسلامی معاشرتی اصول وضوابط کی کھلی مخالفت ہے، رسول رحمت ﷺ نے اسے سخت ناپسند فرمایا ہے، حدیث شریف میں ہے: “اطلع رجل من جحر في حجر النبي -صلى الله عليه وسلم-، ومع النبي -صلى الله عليه وسلم- مدرى، يحك به رأسه، فقال: (لو أعلم أنك تنظر لطعنت به في عينك، إنما جعل الاستئذان من أجل البصر)”. [صحيح بخارى].

“ایک شخص نے سوراخ سے رسول الله ﷺ کے حجرہ میں جھانکا، اس وقت آپ کے دست مبارک میں ایک چھوٹا سا نیزہ تھا،  اس سے اپنا سر کھجلا رہے تھے، آپ نے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوجاتا تو جھانک رہا ہے، تو ضرور میں تیری آنکھ میں اسے مار دیتا، بے شک اجازت طلب کرنے کا حکم نظر بازی کی وجہ سے ہوا ہے”۔

دوسری حدیث میں ہے: “من اطلع في بيت قوم بغير إذنهم فقد حل لهم أن يفقئوا عينه”.

“جو شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالے تو گھر والوں کے لیے اس کی آنکھ پھوڑ دینا جائز ہے”۔

دوسرے خلیفہ حضرت عمر -رضی الله عنہ” فرماتے ہیں: جس شخص نے داخلے کی اجازت سے پہلے گھر کا صحن آنکھ بھر کر دیکھا، اس نے گناہ اور فسق کا کام کیا۔شعب الایمان:۶/۴۴۴)

یہ نگاہوں کی عدم حفاظت ہی ہے، جس نے تقوی کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دیں، جنھیں {قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ} کا فارمولہ دیا گیا، اور جن کندھوں پر ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل کا ذمہ تھا، وہی آمادہ افساد نظر آنے لگے، اور خود اپنی ہی رگوں میں زہریلا مواد داخل کرنے پر بر سر پیکار ہوگیے۔

الله تعالی نے معاشرتی جرائم اور فحاشیوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے حکم دیا تھا:

(إِنَّ النَّظْرَةَ سَهْمٌ من سِهَامِ إِبْلِيسَ مَسْمُومٌ، من تَرَكَهَا مَخَافَتِي أَبْدَلْتُهُ إِيمَانًا، يَجِدُ حَلاوَتَهُ في قَلْبِهِ).

“بے شک نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اسے میرے خوف سے چھوڑدے، تو میں اس کے عوض ایسا ایمان عطا کروں گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا”۔

سرکار اکرم ﷺ نے حضرت علی بن ابو طالب -رضی الله تعالی عنہ- سے ارشاد فرمایا تھا: (يا علي لا تتبع النظر النظرة، فإن لك الأولى وليست لك الآخرة). [رواه أحمد والترمذي وأبو داود]. 

“اے علی، پہلی نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ پڑے، اس لیے کہ پہلی معاف ہے، مگر دوسری تمھارے لیے نہیں ہے”۔

صحابہ رسول حضرت جریر -رضی الله تعالی عنہ- کہتے ہیں: “سألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: عن نظر الفجأة؟ فأمرني أن أصرف بصري”.

“میں نے رسالت مآب -صلی الله تعالی علیہ وسلم- سے اچانک سے پڑ جانے والی نظر کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں نگاہ پھیر لوں”۔

آہ، نفس امارہ کا غلبہ ہر چار سو ہے، محرمات سے نگاہیں سینکیں جا رہی ہیں، احکام الہی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں اتارنے کی سعی متروک ہو رہی ہے۔

اے اسیر نفس، کیا تو نے فرمان خداوندی نہیں سنا:  {وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ}. [اعراف:  176].

“اس نے اپنی خواہش نفس کی اتباع کی، اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے”۔

اے اصلاح معاشرہ کے خواہش مند، اس امر کی ابتداء خود سے کر، رب کریم فرماتا ہے:

{إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ}. [الرعد: 11].

“بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،  یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ تبدیل کر لیں”۔

علامہ اقبال کہتے ہیں:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

 

مولانا توحید احمد علیمی طرابلسی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی سے فاضل اور ٹریپولی یونیورسٹی لیبیا سے ریسرچ کررہے ہیں، علیمی صاحب کی کئی کتب طباعت سے آراستہ ہوچکی ہیں اور چند ابھی منتظر الطبع ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here