شیخ الحدیث حضرت علامہ و مولاناحشم اللہ تدریسی کا سفر آخرت

 

شاہ خالد مصباحی،
دل و دماغ پر سکتہ کے اثرات چھائے، نظر میں تلملاہٹ قائم ہوئی، جب 18 جولائی بروز جمعرات 2024ء کو شوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر موصول ہوئی کہ حضرت علامہ و مولانا الحاج حشم اللہ تدریسی صاحب قبلہ صدر المدرسین دارالعلوم اہل سنت بحر العلوم خلیل آباد سنت کبیر نگر اتر پردیش، ہندوستان کا انتقال پُرملال ہوگیا ۔ حضرت کی اس ناگہانی وفات نے طلبا و طالبات اور مدارس کے استادوں اور ان کے جمیع شاگردوں کو حیران و ششدر کر دیا اور حسرت و افسوس ، یا ویلاتا کے مغموم آنسوں کو بہانے پر انہیں مجبور کیا ۔ چہار سو ان کی مغفرت کے لیے کی جاتی دعاؤں کی درخواستوں اور میسیج و آلہ نشریات پر وارد ہوتی ہوئی ان باتوں کو بڑی تیزی کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے کہ وہ مرد بے باک ، مفسر قرآن ، محدث، و ترجمان ہمدرد قوم و ملت ، پاسبان سنیت و مسلک سواد اعظم ، مقتدائے خیر و برکت ، صلاح ملت کے لیے تڑپتا ہوا قلب و جگر دار، زینت مسند، سند علم و حکمت، خطیبِ اعظم ، مصلح ملت، حامی اخوت و مساوات پرداز، مدبر وقت ، مبصر اعظم، مقلد نظریۂ امام اعظم آج اس دار گیتی سے رحلت فرما گیا۔
دل سے یہ دعا نکلی:
اللهم اغفر له، وارحمه، وعافه، واعفُ عنه، وأكرم نُزُله، ووسّع مُدخله، واغسله بالماء والثَّلج والبرد، ونقِّه من الخطايا كما نقَّيتَ الثوبَ الأبيضَ من الدَّنس، وأبدله دارًا خيرًا من داره، وأهلاً خيرًا من أهله، وزوجًا خيرًا.

علامہ موصوف اہل سنت و الجماعت کے اکابر علما و مشائخ میں سے تھے ۔ آپ کی خدمات جلیلہ میں دینی و شرعی امور کے استحکام کرنے، دین و ملت اسلامیہ کی محافظت کی خاطر جان و تن کی سپردگی ، تصنیف و تالیفات کی تبلیغات، وقت و نظر کی معنویت کے پس منظر میں فتویٰ و مسائل کی بطریق احسن اصلاح و نشریات کروانا ، مساجد و مدارس کے قیام و تاسیس اور امام و خطبا کی جماعت کو تیار کرنا، مدارس اسلامیہ، دینی ادارے اور ملی تنظیمیوں اور مساجد کی سرپرستی اور وکالت کرنا سمیت مختلف شعبوں پر آپ کی شخصی و رسالتی اہمیت و افادیت، کارکردگی و رہنمائی سر فہرست ہیں اور آپ اپنی خدا داد علمی فیضان و کرامات سے اپنی خدمات کا دائرہ چہار سو وسیع رینج پر بچھا ئے ہوئے تھے ۔

علامہ موصوف نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ شہر خلیل آباد کے انصاری محلہ میں واقع دینی و مذہبی ، علاقائی مرکزی ادارہ دارالعلوم اہل سنت بحر العلوم کی خدمت کرنے میں گزاری ۔ آپ اپنی زندگی کے آخری حصہ تک اس ادارہ کے عہدۂ پرنسپل پر فایز رہے ۔ اس ادارہ کی تعمیر و توسیع اور ترقی و پیشرفت میں خوب کوشش کی اور آپ کی بسیار سعی اور جد و جہد سے اس ادارہ میں شعبہ حفظ و قرأت ، عالمیت، فاضل و ادیب ، مولوی و منشی کے کورس جات چلتے رہے۔ اور آپ نے تا دمِ حیات ان شعبوں کی کما حقہ سرپرستی فرمائی ۔ سیکڑوں کی تعداد میں علما و فضلا ، حفاظ و قرا اس ادارے سے فارغ ہوئے اور آج ملک کے مختلف شعبوں میں اپنی بیش قیمت خدمات انجام دے رہے ہیں، و هكذا استمر الله امرا۔

علامہ موصوف کا عملی اور مذہبی رعب و جلال خلیل آباد اور شہر کے گرد و نواح میں بسے سبھی قوموں پر قایم رہی، اس علاقے کی سبھی ملی و اسلامی ، قومی و دینی حمیت کی خاطر قائم ہوتی نشستوں کی آپ سربراہی فرماتے اور بطورِ صدارت ان سبھی مجلسوں میں شرکت کرتے رہے ۔
عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے موقع پر آپ پورے شہر میں گشت کرتے، جلوس نبوی کی سربراہی و سرپرستی فرماتے اور اس موقع پر ایک خاص پیغام شہر کے بیچ میں کھڑے ہوکر ذرائغ ابلاغ و ترسیل پرنشر کرتے اور ملت کے لوگوں سے مخاطب ہوکر نبی اکرم کی سیرت وکردار سے خبردار کرتے، اس موقع پر مجمع کا ولولہ، فرط محبت میں جھومتے ہوئے علامہ موصوف کا اندازِ بیان دیدنی اور فریفتہ گر ہوتا تھا۔
سن 2011,12,13 کے جلوس میں میری شرکت رہی، آج وہ سارا حسن منظر میری نظروں کے سامنے عیاں ہے۔ اور آپ کے چہرے کا رعب اور علمی قابلیت ، تقریری صلاحیت ، زبانی سلاست، بیان کی روانگی، ہر ایک چیز ذہن میں گردش کر رہی ہے، آپ کے کن خوبیوں کا تز کرہ یہاں چھیڑوں جب کہ آپ اپنے میں خوبیوں کا مجسمہ ، حسن اخلاق اور عادات حسنہ کے پیکر تھے، اور ایسی بے شمار خوبیوں کو رب العزت نے آپ کی ذات میں ودیعت رکھی تھی، بس خالق کائنات سے یہی ملتجی ہوں :

“خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں”

شیخ الحدیث علامہ حشم اللہ تدریسی صاحب قبلہ نے اپنی تقریباً 62 سالہ زندگی میں خطابت و تدریس کے علاوہ دین و ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کی خاطر بے شمار تحریکوں اور مشنوں کا حصہ رہے اور اس کی بھر پور سربراہی کی ۔ آپ نے اس ادارہ مذکورہ میں ملت کے اندر شرعی مسائل کے تحت بیداری پیدا کرنے اور قوم کے مسائل کی شرعی حل و جستجو کے لیے دارالافتاء کا قیام کرایا، اور ہر لمحہ علما کی ایک جماعت کو اس کے تحت سرگرم عمل رکھا۔ ملت کے مختلف مسائل پر آپ ضلع کے علما کو جمع کرتے اور اس کے حل کے لیے کوشاں رہتے ۔
علامہ موصوف اپنی تدریسی قابلیت اور بہترین تدریسی نظام و قابلیت کی بنیاد پر پورے متحدہ ضلع بستی و منڈل کے مدارسِ دینیہ کے طرایق صدارت میں تعارت کے محتاج نہیں ہیں، آپ نے پرنسپل کے منصب کو بڑی دیانتداری کے ساتھ استعمال کیا ، جس سے طلبا و اساتذہ و ملازمین سبھی کے حقوق کی صیانت داری کی ۔

آپ علم و فضل کے کوہ گراں ہونے کے ساتھ انسان دوست، خوش اخلاق ، خوش گفتار ، ملنسار، دل نواز ، فیاض سخن آدمی تھے۔ میں نے اپنی ابتدائی درس نظامی کے اسباق آپ کے ہی زیر سایہ دارالعلوم ہذا میں حاصل کی۔ کچھ کتابوں کے اسباق آپ سے حاصل کی اور تیسری جماعت سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لینے کے بعض کئی دفعہ بغرض ملاقات آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، استاد ہوتے ہوئے بھی مہمان نوازی کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑی، اور بارہا اکتساب علم و دعا کا موقع ملا۔
میں نے اس درمیان شہر و گرد و نواح میں شعلہ بار ملی و مسلکی و مذہبی مسائل کی چوں آپ نے تصلب فکر و نظر ، حسن تدبیر کے ساتھ معاملہ جوئی کی اور اس کے حل کے لیے جو کوشش فرمائی وہ امت کو بہت بڑے فتنے و گمراہی سے بچانے کا کام کیا، ان خوبیوں میں آپ منفرد المثال تھے، اور اس سلسلے میں آپ کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ مگہر کی سرزمین پر چین کی گھڑی و دیگر فروعی مسائل کو لے کر اس علاقے کے علما کے درمیان جو طبقاتی درجہ بندی پیدا کی گئی ، ایک ہی جماعت و معاشرے میں پھونٹ ڈال کر راج کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا جو سلسلہ ہموار کیا گیا، آپ نے اپنے دم قدم پر سبھی لوگوں کو ایک ساتھ لاکر ایک نشست میں بیٹھایا، آپ ہمیشہ اپنے کردار و بیان سے اختلاف و افتراق سے دور رہنے اور سر جوڑ کر بیٹھنے کے پیغامات کو عام کرتے، اس خوبی میں آپ اپنے علاقے کے علما و سرکردہ رہنماؤں میں عدیم النظیر تھے۔ اور افسوس آج امت ایک ایسے بے باک مفکر و مصلح ، داعی ، مدبر و مبصر، محدث و مقرر ، مصلح شخص سے محروم ہوگئی ہے۔ آپ نے ہمیشہ اس بات کی تنبیہ کی اور رعب دار آواز میں کہتے، بابو امت کا بہت برا حال ہے، جہاں بھی رہیں کام کریں اور کام ہی انسان کو شرف بخشتا ہے۔

اصول پسندی کا خوگر، علم دوست، مرد نیک طینت، فکر مستقیم اور سلیم الطبع کےمالک علامہ، محدث ، مفکر وقت زمانے کے مختلف حادثات و آفات کا سامنا ضرور کیے، لیکن حق گوئی و صداقت کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھا۔ جس وجہ سے بعض لوگوں کو اس جوہر کشاں عالم دین سے کچھ تلخی بھی دیکھنے کو ملی، لیکن یہ ہمیشہ اپنے دامن و دربار کو اپنے اور پرائے سبھی لوگوں کے لیے یکساں کھولے رکھے، کیوں نکہ آپ کا وصف سخن اس چیز کا حمایتی اور آپ ایسے شخص کے جستجو گر تھے:

ظہور جلوہ کو ہے ایک زندگی درکار
کوئی اجل کی طرح دیر آشنا نہ ملا

بالآخر علامہ موصوف، استاد محترم مرحوم پرنسپل صاحب (برد الله مضعه) کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ مولا تعالی آپ کی مغفرت فرماۓ اور آپ کے لواحقین و پسماندگان ، صاحبزادگان و صاحب زادیاں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور اس صبر پر أجر عظیم سے سرفراز بخشے ۔ آمین

شاہ خالد مصباحی،
شعبہ تعلیم و تربیت
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
19 جولائی بروز جمعہ 2024ء

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here