خارجیت زدہ سوچ نے امام نسائی کو شہید کیا

از-ڈاکٹر میم الف نعیمی (ایڈووکیٹ)

تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں اہل حق کو اہل باطل نے پریشان کیا ہے آج کل کچھ پیشہ ورانہ مقررین اپنے آباؤ اجداد کے طرز عمل کو پس پشت ڈال کر بنو امیہ کی جوتیاں سیدھی کر اپنے نمبر بڑھوانے کا کام کر رہے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے اجداد کا تذکرہ کرتے ہوئے گھبرا رہے ہیں اور جبراً متعلقین سے بنو امیہ کے قصائد پڑھوا کر اپنی ذات کو رافضیت کے فتوے سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ایسے لوگ وقتی طور پر دنیاوی اعتبار سے کامیاب تو ضرور ہوں گے مگر تاریخ میں بزدلوں کی طرح یاد رکھیے جائیں گے.

یاد رکھو! خارجیت زدہ سوچ نے تمہارے اجداد کو نہیں چھوڑا تو تم بھلا کیسے ان سے خیر کی توقع کر سکتے ہو تمہیں جو ملے گا علی سے ملے گا علی کا در چھوڑو گے تو در در کی ٹھوکریں کھاؤ گے

علی علیہ السلام کے عشق کا دعویٰ آسان ہے مگر مولائیوں کا راستہ بڑا مشکل ہے ہو بھی کیوں نہ ہمیشہ سے باطل جو طاقتور رہا ہے
خارجیت زدہ علماء سو نے ہمیشہ علی والوں کا امتحان لیا ہے آج بھی آپ اگر عاشق علی ہیں تو آپ کو…… مسجد کی امامت سے ہاتھ دھونا پڑے گا، پیر ہیں تو……. آپ پر رافضیت کا فتویٰ جاری ہو سکتا ہے، خلیفہ ہیں تو…….. آپ کی خانقاہ سے آپ کا بائیکاٹ ہو سکتا ہے، مرید ہیں تو…………. مریدی سے ہاتھ دھونا پڑے گا.
مگر پیارے! ان سب سے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ تم علی والے ہو اور علی والے ہی کربلا میں اجداد کے دین کی خاطر قربان ہو جایا کرتے ہیں. اور یہ بھی یاد رکھو یہ جماعت ہمیشہ مختصر ہی رہتی ہے کربلا یاد ہے نا…….
تم میں کوئی حر ہے……. کوئی عمار بن یاسر ہے……. کوئی محمد بن ابو بکر ہے……….. کوئی عباس علمبردار ہے…..کوئی سکینہ ہے…… کوئی ام لیلیٰ ہے… کوئی علی اکبر ہے. غرضیکہ علی کی محبت قربان ہو جانے کا نام ہے. (رضی اللہ عنہم اجمعین)

نور یقیں علی سے ہمیں اقتباس ہے

ایمان کی علی کی ولا پر اساس ہے

میں آپ کے سامنے آج ایک جاں نثار علی کا واقعہ تحریر کرتا ہوں جسے پڑھ کر آپ کے ایمان و عقیدہ کو پختگی ملے گی اور خارجیت زدہ سوچ سے ٹکرانے کے عزم میں استقامت آئے گی.
امام نسائی جب مصر سے رملہ اور دمشق پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ بنی امیہ کے زیراثر ہونے کی وجہ سے یہ پورا خطہ آج کے بھارت و پاکستان کی طرح خارجی افکار ونظریات کی زد میں ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کی کھلے عام تنقیص کی جاتی ہے، یہ دیکھ کر امام نسائی کو بڑا رنج ہوا اور انھوں نے حضرت علی کے مناقب میں ایک کتاب “خصائص علی” تالیف فرمائی،

پھر خیال ہوا کہ اس کتاب کو جامعِ دمشق میں سنائیں ؛ تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو اور خارجیت کے اثرات ختم ہوں۔ ابھی آپ نے کتاب کا کچھ ہی حصہ سنایا تھا کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر اعتراض کیا کہ آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ لکھا ہے؟ آپ نے جواب دیا: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہی کافی ہے کہ ان کو نجات مل جائے، بعض کہتے ہیں یہ جملہ بھی کہا کہ میرے نزدیک ان کے مناقب بیان کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ سن کر لوگ مشتعل ہو گئے، آپ پر تشیع کا الزام عائد کرکے لاتیں مارنا شروع کر دیا۔ آخر اتنا ماراکہ آپ نیم جان ہو گئے۔ خادم اٹھاکر گھر لائے، آپ نے ان سے فرمایا: مجھے ابھی مکہ مکرمہ لے چلو، وہاں پہنچ کر مروں یا راستے میں موت آجائے۔ غرض کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر انتقال ہوا اور صفا ومروہ کے درمیان مدفون ہوئے، بعض کا خیال ہے کہ راستے میں ہی انتقال ہوا۔ وہاں سے مکہ مکرمہ لے جاکر تدفین ہوئی، تاریخ وفات 13/صفرالمظفر 303ھ ہے۔
سیر أعلام النبلاء 11/197، بستان المحدثین/189
بہرحال امام موصوف کی عظیم تصنیف سنن نسائی آج عالم اسلام کی ہر ایک دینی درسگاہ میں دورہ حدیث میں داخل شامل نصاب ہے اور اپنی انفرادی اور امتیازی خصوصیت اور طرز نگارش کے اعتبار سے بلاشبہ بخاری ومسلم کی طرح اہمیت سے پڑھائی جانے کے درجہ میں ہے۔
علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ ذخیرہ احادیث میں یہ بہترین تصنیف ہے۔ اس سے قبل ایسی کتاب موجود نہ تھی۔ علامہ سخاوی فرماتے ہیں : بعض علما سنن نسائی کو روایت و درایت کے اعتبار سے صحیح بخاری سے افضل گردانتے ہیں۔ ابن رشید تحریر کرتے ہیں۔ جس قدر کتب حدیث سنن کے انداز پر مرتب کی گئی ہیں، ان میں سے سنن نسائی صفات کے اعتبار سے جامع تر تصنیف ہے کیونکہ امام نسائی نے امام بخاری اور امام مسلم کے انداز کو مجتمع کر دیا ہے۔
تو دوستو یہ تمہارے امتحان کا وقت ہے صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹے رہو خارجیت و رافضیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے بچوں میں محبت اہل بیت کی آگ کو سرد نہ پڑنے دینا ان شاءاللہ یہ دور بھی گزر جائے گا
ڈاکٹر میم الف نعیمی
١٨ فروری ٢٠٢٣ بروز شنبہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here