از۔ڈاکٹرمحمدقائم الاعظمی علیگ
سسرال کا خیال آتے ہی ہر کنوارے کا دل کیف وسرور وانبساط کے عالم میں رقص کرنے لگتا ہے سسرال کا رشتہ دیگر رشتوں سے مختلف ہوتا ہے اس میں ملاحت وشیرینی کی لذت گل ویاسمین رابیل بیلا وچمیلی کی خوشبو ہوتی ہے اور بیک وقت کئی خوبصورت القاب کی نوازش بھی ہوتی ہے ان مذکورہ اوصاف وخصوصیات سے مطمئن ومحظوظ کتنے ہوئے ان شادی شدہ حضرات کے بارے میں باوثوق طور پر مجھے علم نہیں کہ ان کی ذہنی وقلبی کیفیات کیا رہی ہوں گی، ویسے تو ہر شادی شدہ شخص چاہے وہ نوجوان ہوں یا جوان ہوں یا معمر یا بزرگ ہو سسرال کی دہلیز پر پہنچا ضرور ہے (اور ہاں میں ان لوگوں کو اس سے مستثنی قرار دیتا ہوں جنھوں نے والدین کے پسند کے بغیر معاشقہ میں کورٹ میرج کی ہے) اور ان میں سے ہر ایک نے شادی سے قبل جو سنہرے تصوراتی تخیلاتی خاکے سسرال کے متعلق ذہن میں بنائے تھے وہاں پہنچ کر ان کے سارے تصورات تخیلات شرمندہ تعبیر ہوئے یا ریت کی دیوار کی طرح منہدم ہو گئے یہ انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی مسائل ہیں اس کے مثبت ومنفی پہلوؤں پر بحث ومباحثہ وتحقیق وتجسس کرنے کے لئیے چند سالوں کی کدوکاوش درکار ہے، ان میں بہت سے افراد ایسے ہیں جنہیں سسرال میں اچھی خاطر مدارت.
تواضع کے ساتھ انکے حسب منشاء فرمائشیں پوری کی گئی ہوں اور شادی کے بعد دیگر ادوار میں خاصے مطمئن بھی نظر آتے ہوں.. جب میں سن شعور کو پہنچا طالب علمی کا زمانہ تھا میری جماعت میں مقامی وبیرونی ساتھی جو مجھ سے چھوٹے بھی تھے اور کافی بڑے بھی تھے ان میں سے کچھ کی شادی وقت پر اور کچھ کی قبل از وقت حالات ونزاکت اور ماں باپ کی خوشی کے لئیے وہاں کی قدیم روایات کی پیش نظر ہوگئ تھی… ان میں سے چند ایسے بھی تھے جن کی بچپن میں شادی ہو گئی تھی فقط انکو سسرال جانے کا خیال تھا کیا کھویا کیا پایا اس کا انہیں کچھ علم نہیں تھا ان پر جو آفات بیتی تھی وہ بیان کیا، سسرال کی شیریں وتلخ داستانوں کو درس کے خالی اوقات میں ان شادی شدہ احباب سے سننے میں بڑا لطف ومزہ آ رہا تھا احباب نے ان مسرت وشادماں ماحول کو کچھ کدورتوں تلخیوں اور کچھ نے مصنوعی طور پر ان واقعات کو دلچسپ بنا کر کچھ اس طرح بیان کیا کہ سسرال کے وہ حسین وخوبصورت تصورات میرے ذہن میں نقش ہو گئے اور شادی سے قبل سسرال کی دہلیز پر تصورات و تخیلات میں سیر سپاٹے کرتے ہی پھرتا تھا.
اور دل میں پھلجھڑیاں چھوٹتی تھیں اکثر احباب کی شادی میں بہ مشکل باراتی جانے کا اتفاق ہوا لیکن دولہن کے ساتھ سسرال جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا.دولہے میاں سسرال جاکر کن کن خوشنما ماحول یا کن کن صبر آزما دورسے گزرے بچشم خود دیکھنے کا موقع نہیں ملا… فقط ان کی زبانی ہی معلوم ہوتا رہا.پھر دوسروں کی سسرال سے کیا کہنا اور کیا واسطہ. ہر شخص کو اپنی سسرال سے واسطہ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئیے کیونکہ جورو کے گھر والوں سے اور وہاں کے چرندو پرند سے راہ ورسم بڑھانے میں ہی عافیت ہے.. دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں فقط ایک ہی بار سسرال جانے کا اتفاق ہوا کسی کا دوچار اور اکثریت کاوقتا فوقتا.. تادم زندگی میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ والدین سے بغاوت کرکے یاسسرال کی جائیداد کی لالچ میں آکر گھر داماد بن کر شان سے زندگی گزارتے ہیں اور سسرال کے پڑوسیوں کے بہت سے ناگوار خاطر مبھم فقرے سننے پڑتے ہیں مگروہ بیچارے کچھ پانے کو کچھ نہ کچھ کھونے کے مصداق ہر غم وطنز کو برداشت کر لینے میں عافیت محسوس کرتے ہیں ،دوران تعلیم جب میری شادی طئے ہوئی اس وقت میں میچور کی منزل میں تھا منگنی کے بعد ہی احباب نے جہاں خوشی ومسرت کے ساتھ میرا ساتھ دیا اور اپنی جماعت میں شامل کر نے کے لئیے شادی ویٹنگ لسٹ میں میرا نام نوٹ کرلیا وہیں ایک جملہ مجھ سے جوڑ دیا اب میاں بیچلر نہیں رہے اب زندگی بھر ایک بندش کے لئیے تیار ہو جاؤ.. آزادی وبے فکری کے دن اب لدنے والے ہیں نئی ز ندگی کی شروعات کے لئیے ابھی سے تیاریاں شروع کردو…
میں سوچنے لگا بہت سی خانگی ذمہ داریوں کا بوجھ نا تجربہ کار کندھوں پر اٹھانے کا احساس گویا سارے ارمانوں اور بے فکری کے ایام کا جنازہ ایک ساتھ نکلنے کے مترادف تھا…. شادی کی تاریخ طئے پائی گھر میں ہلچل مچی سب کے چہروں پر مسرت وشادمانی کے آثار نظرآنے لگے اورہر طرف یہی چرچہ رہا کہ شاہد میاں کی شادی ہے.. احباب چٹکیاں لینے لگے قرب وجوار کی بھابھیاں بھی اپنی اپنی زمہ داریوں کا احساس دلا کر مجھے مرعوب کرنے لگیں… احباب بھی گھر پر آ کر ان تیاریوں میں ساتھ دینے لگے کام کم مگر تفریح ومذاق کا سلسلہ تادیر رہتا …باتوں بات میں احباب کے مبہم فقرے سننے کو مل رہے تھے انہیں بادل ناخواستہ برداشت کرنا ہی پڑتا تھا زندگی میں جو کبھی بے وقوف نہیں بنا تھا وہ دولہا بننے سے قبل بن کر بے وقوف بن جاتا ہے. وقت قریب آتا رہا مصروفیات میں اضافہ ہوتا رہا احباب اپنے اپنے تجربات ومشاھدات کی روشنی میں الٹے سیدھے سبق پڑھاتے رہے،میں مجھول طالب علم کی طرح ان متضاد اسباق کو باہوش وحواس یاد کرتا رہا الغرض وہ پر کیف ساعت آ ہی گئی جب مجھے دولہا بنایا گیا والدین وخویش واقرباء دوست واحباب خوشی مسرت وشادمانی کے ماحول میں سرشار تھے میری کیفیات کا کیا عالم تھا میں کچھ بتا نہیں سکتا. گاتے بجاتے بارات روانہ ہوئی پٹاخوں کی گونج کیف ومستی کے عالم میں سارے باراتی رواں دواں ہوئے جن میں معمر وبزرگ. جوان ونوجواں و بچے .با ریش وبے ریش کچھ بچے اپنے باپ کی انگلیاں پکڑے ہوئے کچھ شیر خوار بچے کندھوں پر سوار ہو کر. ایک پالکی میں چند کہار کے کندھوں کے سہارے سوار ہو کرمجھے سسرال کی جانب رونہ کیا گیا اس کا مجھے علم نہیں… میرے بغل میں ایک چھوٹا سا بچہ جسے عرف عام میں شہ بالا کہا جا تا ہے میرے سراپے کا جائزہ لے رہا تھا،بارات سسرال کی دہلیز پر پہنچی گھر والوں نے بڑے شاندار انداز میں بارات کا استقبال کیا،عورتوں پر پابندی کی وجہ سے زنانہ سواگت نہیں ہو… کچھ منچلے باراتیوں نے بتاشے لڈو گلاب جل نچھاور کیا.
بارات ایک پنڈال میں جا کر پر تکلف ناشتہ ومشروبات کھانے میں مصروف ہوئی. کچھ لمحوں کے نکاح خوانی ہوئی . سبھی احباب نے نکاح کے بعد اپنے اپنے انداز میں مبارکبادیاں پیش کی کسی نےسرگوشی انداز میں کہا کہ شاہد میاں آج ایسے بندھن میں بندھ گئے جس سے زبست ممکن نہیں. مولانا صاحب نے نان ونفقہ اور جیون ساتھی کی ساتھ خوش وخرم رہنے کا وعدہ کیا اور دعائیں کیں لوگوں نے بطور گواہان کے آمین کہا میں نے ان سب باتوں اقرار بلقلب. اقرار بللسان کیا. اس طرح ایک بڑے ہجوم میں ؛ النکاح من سنتی ؛ کاعالمی پیغام عمل میں آیا. پھر دعوت وطعام کا لا متناہی سلسلہ چلا..یہ اقتباس معروف مزاحیہ کالم نگار ڈاکٹر محمد قائم الاعظمی علیگ برجمن گنج ضلع مہراج گنج کی مشہور ومعروف کتاب،نقوش طنزومزاح ترتیب مشہور صحافی وکالم نگار حضرت مولانامحمد قمرانجم قادری فیضی سےلی گئی ہے

























































