ہندوستانی جمہوریت اب آخری پائیدان پر

 

گزشتہ آٹھ برسوں میں انتہا پسند تنظیم (بی جے پی-آر ایس ایس) نے جس طرح ہندوستانی جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کر کے ہندوستانی عوام کو پریشان کئے ہوئے ہیں وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے اب اس ملک سے جمہوریت کا جنازہ بس اٹھنے ہی والا ہے۔ بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنازہ اٹھ چکا ہے۔

شروع ہوتی ہے کہانی 1925ء میں قائم ہونے والی ہندو احیاء پسند جماعت (آر ایس ایس) کی جنہوں نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی تیاریاں اندر ہی اندر چلاتی رہیں۔ اس کے بعد ایودھیا میں رام جنم بھومی کی تحریک کو ہوا دیا چُنانچہ اس تحریک نے فسادات کے ساتھ ساتھ ملک میں نفرت کا زہر پھیلایا اور 6 دسمبر 1992ء کو (ہزاروں ہندو کار سیوکوں نے) بابری مسجد منہدم کر دیا۔

اس تحریک نے جو راہ ہموار کی تھی اس پر آر ایس ایس کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت (بی جے پی) چلتی رہی اور بالآخر 2014ء میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنا دیا گیا۔ (چونکہ نریندر مودی 2002ء میں خود کو کٹر ہندو وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کیا) اور آر ایس ایس کو یہ معلوم تھا کہ اگر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بن گئی تو اسے ہندو اسٹیٹ بنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔

بہرحال! آر ایس ایس کی پوری طاقت اور اُن کی مسلسل محنت نے مودی کو 2014ء میں نہ صرف کامیاب بنایا بلکہ 2019ء کی الیکشن میں ایک طرفہ ووٹ حاصل کر کے مودی قیادت (بی جے پی) نے ہندوستانی جمہوریت میں نئی تاریخ رقم کر دی اور ہندوتوا کا ایجنڈا آنے والے تمام الیکشن پر حاوی ہو گیا۔

مودی حکومت کے دورِ اول (2014-2019) میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی عملاً بنیاد ڈالی گئی اور دورِ دوم (2019- تا حال) اس پر عمارت تعمیر کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ جن میں سے 9 نومبر 2019ء کو ہندوستانی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کے خلاف رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانا، سی اے اے ( CAA) ، تین طلاق وغیرہ شامل ہے۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ سب مودی حکومت ہی میں ہوا ہے۔ اگر وہ یہ سب نہیں کرتے تو ان کے نیچے سے کرسی کھینچ لی جاتی۔ اس لئے اس حکومت کی یہ مجبوری ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف ماحول بنایا جائے اور یہ پروپیگنڈہ کیا جائے کہ اب تک کی جو حکومتیں تھیں وہ ہندو دشمن اور مسلم دوست تھیں۔اس طرح ہندووں میں نفرت کا زہر گھولا گیا اور جا رہا ہے۔ اس ہلاکت خیز کا اثر دکھائی دے رہا ہے، بے روزگاری، مہنگائی، ناقص صحت کا نظام وغیرہ لوگوں نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی جمہوریت اب آخری پائیدان پر ہے۔

اگرچہ آج بھی کہنے والے لوگ موجود ہیں کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر نہیں بننا چاہیے, لیکن اب ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ سے لیکر تمام اداروں میں مسلم دشمنی اور دیگر اقلیت کے خلاف انجکشن لگائی جا رہی ہے۔ ان کے اثرات تعلیم یافتہ ہندووں میں بھی نظر آرہے ہیں اور جو لوگ مسلم دشمنی کے جذبات کو اپنے اندر دبائے ہوئے تھے وہ اب کھل کر باہر آگئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے مسلمانوں کو صبر و استقامت عطا فرمائے اور ملک کے جمہوریت کو سلامت رکھے۔ (آمین)

از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
الغزالی اکیڈمی و اعلیٰ حضرت مشن
شائع کردہ: 27/مارچ/2023

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here