دعاؤں کی قبولیت کے لمحات

 
پرویز یعقوب مدنی 
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال 
__________
اللہ رب العالمین کی ہم انسانوں پر بے شمار اور لا تعداد نعمتوں میں سے ایک عظیم اور بے مثال نعمت دعاء ہے ۔ اللہ رب العالمین بندے کو مخلتف طرح سے آزماتا ہے بندے کا امتحان لیتا ہے کبھی کسی نعمت اور اہم چیز سے محروم کردیتا ہے کبھی رزق میں تنگی اور کبھی مال و اولاد میں فراخی کے ذریعہ ذریعہ آزمائشوں سے دو چار کرتا ہے ایسے حالات اور لمحات میں بندے کو باری تعالیٰ سے منت و سماجت اور دعاء مانگنا چاہئے ۔ دعاء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بندے کی پریشانیوں کو دور کرتا ہے اسی لئے شریعت اسلامیہ نے ہمارے لیے کچھ ایسے اوقات و لمحات کچھ جگہیں مقرر کی ہیں اور کچھ حالات ایسے بتائے ہیں جن میں دعاء زیادہ قبول ہوتی ہے۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
 🌹نمبر ایک: *رات کے آخری تہائی حصے میں دعا کرنا۔*
 صحابی رسول جناب ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟۔ (متفق علیہ)
ترجمہ: ہمارا رب سبحانہ و تعالی ہر رات آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے جب کہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے وہ کہتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کروں کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے دوں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے  میں اسے معاف کردوں۔
 🌹نمبر دو۔ *سجدوں میں دعا کرنا:*
صحابی رسول جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَا وَإِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ۔ (رواہ مسلم)
ترجمہ:خبردار! یاد رکھو بے شک مجھے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے رکوع میں تم لوگ اللہ رب العالمین کی تعظیم بیان کیا کرو اور سجدے میں خوب دعائیں کیا کرو یہ زیادہ لائق ہے کہ تمہاری دعائیں قبول کی جائیں۔
🌹نمبر تین۔ *اپنے مسلمان بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے دعا کرنا*
صحابی رسول جناب صفوان بن عبداللہ بن صفوان کہتے ہیں کہ ام درداء نے ان سے کہا: أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ. قَالَتْ : فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ ؛ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ : ” دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ، كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ : آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلٍ قَالَ : فَخَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ ، فَقَالَ لِي مِثْلَ ذَلِكَ يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (رواہ مسلم)
ترجمہ: کیا تم اس سال حج کرنا چاہتے ہو انہوں نے کہا ہاں۔ تو ام درداء نے کہا تو تم ہمارے لیے اللہ تعالی سے خیر کی دعاء کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے مسلمان آدمی کا اپنے بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے دعاء کرنا قبولیت کا باعث ہوتا ہے اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے جو اسی پر مامور رہتا ہے کہ جب وہ اپنے بھائی کے لیے کسی خیر کی دعاء کرے تو وہ موکل فرشتہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہارے لیے بھی اسی جیسی چیز میسر ہو تو صفوان کہتے ہیں پھر میں بازار کی جانب نکل آیا میں نے ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات کی انہوں نے بھی مجھ سے ایسے ہی کہا اور وہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے تھے۔
دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتی؟؟؟
دعاؤں کی عدم قبولیت کا سب سے بڑا سبب حرام کھانا اور حرام کمائی اور حرام تجارتیں ہیں۔
جناب ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ : { يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ } ، وَقَالَ : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ } ، ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ : يَا رَبِّ يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ “. (رواہ مسلم). 
 ترجمہ: اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالی پاکیزہ ہے اور صرف پاک چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے۔ اور بلا شبہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جس کا اس نے اپنے پیغمبروں کو حکم دیا. اللہ تعالی نے رسولوں کو فرمایا اے پیغمبرو! تم پاک روزی کھاؤ اور نیک عمل کرو بے شک جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے جاننے والا ہوں۔ اور اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جو ہم نے تمہیں روزی دی ہے اس میں سے پاک چیزیں کھاؤ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو لمبے سفر پہ ہو، پراگندہ بالوں والا ہو، غبار آلود ہو، اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے ہو، اے رب! اے رب! کہہ کر پکار رہا ہو اس کا کھانا حرام ہو اس کا پانی حرام ہو اس کا لباس حرام ہو اور حرام مال سے اس کی پرورش کی جا رہی ہو تو ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول کی جا سکتی ہے!!
جناب نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہما کی صحیح روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ، قَالَ رَبُّكُمُ : { ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ } (رواہ الترمذی و ابوداؤد)
ترجمہ: دعاء ہی عبادت ہے۔ اللہ رب العالمین نے فرمایا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
یہ عبادت خالص اللہ کا حق ہے اس کو کسی اور کی جانب پھیرنا درست نہیں ہے اور اس نے اسی چیز کا حکم دیا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: {إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ} [يوسف : 40]۔ 
ترجمہ : (یاد رکھو کہ) اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے۔ ایک اور جگہ فرماتا ہے: “فلا ادعوا مع الله أحدا”۔ (الجن 18)۔
ترجمہ : تم اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔
شرک و کفر کی اکثر صورتیں جو زمانہ ماضی میں اور حال میں بھی لوگوں کے درمیان پھیلی ہوئی ہیں وہ یہی ہے کہ دعاء جیسی عبادت کو فرشتوں کے لیے انبیاء کے لیے رسولوں کے لیے اولیاء و صالحین کے لیے یا کسی اور کے لیے پھیر دیتے ہیں یعنی اس دعا میں انہیں اللہ کا شریک بناتے ہیں چنانچہ انہیں یہ کہتے ہوئے پکارتے ہیں اے اللہ کے رسول ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دیجیے۔ اے بدوی ہماری مدد کرو یا عبدالقادر جیلانی ہماری خبر لے لو۔ اے حسین ہمیں شفا دے دیجیے  اے عیدروس ہماری حمایت کیجیے۔ اے میرغنی ہماری مصیبتیں دور کر دیجیے۔ اے رافعی کچھ تو دے دیجیے۔ لہذا اس قسم کی تمام چیزیں عبادت کو غیر اللہ کی جانب پھیرنا ہے اور یہ وہ شرک ہے جس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہوجاتا اور نکل جاتا ہے کیونکہ یہ ایسے کاموں میں غیر اللہ کو پکارنا ہے جس پر صرف اللہ تعالی قادر ہے۔
محترم قارئین! بلند آواز سے چلا چلا کے دعاء کرنا برا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی پر نکیر فرمائی ہے جو ذکر و اذکار میں آواز بلند کرتا ہے۔ صحابی رسول جناب ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنَّا إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ هَلَّلْنَا وَكَبَّرْنَا، ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ ؛ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ، إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ، تَبَارَكَ اسْمُهُ وَتَعَالَى جَدُّهُ “. (متفق علیہ).
ترجمہ: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب ہم لوگ کسی وادی میں پہنچتے تو ہم تکبیر و تہلیل کرتے ہماری آوازیں بلند ہو جاتیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! اپنے آپ پر رحم کرو کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلاشبہ وہ تمہارے ساتھ ہے سنتا ہے قریب ہے اس کا نام بڑا بابرکت ہے اور اس کا نصیبہ بڑا بلند ہے.
مشہور مفسر امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ دعاء میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے اور یہی اسلاف صحابہ اور تابعین کا عام قول ہے۔
جناب امام آلوسی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تم اپنے اہل زمانہ میں بہت سارے لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ دعاء میں چلانے کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں خصوصا جامع دعائیں یہاں تک کہ آواز بڑھ جائے اور بہت بلند ہو جائے اور وہ لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کر کے انہوں نے دو بدعتیں جمع کر رکھی ہیں پہلی بدعت دعا میں بلند آواز کرنا اور دوسری بدعت یہ کام مسجد میں ہونا۔ اسی طرح امام کا مقتدیوں کے ساتھ بلند آواز سے فرض نمازوں میں سلام کے بعد اجتماعی دعا کرنا ہے، چنانچہ امام دعاء کرتا ہے سارے مقتدی اس کے پیچھے آمین کہتے ہیں یہ شریعت اسلامیہ میں غیر معروف چیز ہے اسے نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا نہ اس پر صحابہ کرام کا عمل ہے نہ ہی قرون اولی سے ثابت ہے نہ ہی  ائمہ اربعہ کا یہ فتوی ہے نہ ہی ان کے شاگردوں سے یہ تعلیم ملی ہے بلکہ حرام بدعت ہے۔
مشہور فقیہ امام شاطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نمازوں کے بعد امام کا اجتماعی دعاء کرنا اس کی سنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی جس سے اسے تقویت ملے بلکہ بعض روایات ایسی ہیں جن سے اس کی نفی ہوتی ہے اور جن کی اقتدا واجب ہے وہ سید المرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ سے نمازوں کے بعد جو عمل ثابت ہے وہ یا تو خالص ذکر و اذکار ہیں جس میں دعاء نہیں ہے یا پھر ایسی دعائیں ہیں جو اپنے لیے مخصوص ہوتی تھیں آپ سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ آپ نے جماعت کے لیے دعاء کی ہو اور یہی آپ کا پوری زندگی عمل رہا ہے پھر آپ کے بعد خلفائے راشدین کا بھی عمل رہا ہے اور اسلاف صالحین کا بھی عمل رہا ہے۔
محترم قارئین! اہل علم کے نزدیک دعاء میں جو چیز حرام ہے وہ کسی کی عزت یا مخلوقات میں سے کسی مخلوق کے حق کے واسطے سے اللہ تعالی سے دعاء کرنا اور پکارنا ہے مثلا بعض لوگ دعاء کرتے وقت کہتے ہیں اے اللہ میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ کے واسطے سے یا حق کے واسطے سے یا انبیاء کی عزت کے واسطے سے یا تیرے نیک بندوں کی عزت کے واسطے سے یا اس جمعہ کے حق کے واسطے سے دعاء کرتا ہوں کیونکہ دعاء میں جاہ یا حق داخل کرنا قرآن مجید میں ایسی کوئی نص نہیں ملتی اور نہ ہی سنت نبویہ سے اس کا کوئی صحیح ثبوت ملتا ہے نہ ہی صحابہ کرام سے اور تابعین عظام سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور جو بھی عمل ایسا ہو اس کو علماء بدعت قرار دیتے ہیں اور بدعت حرام ہے بلکہ یہ سب سے بڑا گناہ اور نافرمانی ہے۔ واللہ اعلم

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here