مسلمانوں کی ایجادات اور یورپی ترجمہ
کاری: ایک تحقیقی جائزہ
از-ڈاکٹر میم الف نعیمی
خلاصہ
یہ مقالہ اس بات کا تجزیہ کرتا ہے کہ کیسے 8ویں سے 15ویں صدی کے دوران مسلمان سائنسدانوں نے طب، ریاضی، فلکیات، کیمیا اور طبیعیات میں نمایاں ایجادات اور دریافتیں کیں، جنہیں بعد میں یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران عربی کتب کے انگریزی یا لاطینی ترجمے کے ذریعے یورپی سائنسدانوں کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس مقالے میں تاریخی حوالہ کتب، مستند تحقیقات اور علمی مکالمات کا استعمال کرتے ہوئے اس بحث کو اجاگر کیا گیا ہے کہ کس طرح مسلمان سائنسدانوں کی علمی خدمات کو مناسب اعتراف سے محروم رکھا گیا اور بعض معاملات میں ان کی تحقیقات کو پوشیدہ یا سرقہ بازی کی شکل میں پیش کیا گیا۔
تعارف
مسلمان سائنسدانوں کا سنہری دور تاریخِ اسلام کا وہ دور تھا جب طب، ریاضی، فلکیات، کیمیا اور طبیعیات کے میدان میں بے شمار بنیادی دریافتیں کی گئیں۔ ابن الہیثم، جابر بن حیان، ابن سینا، الخوارزمی اور ابن النفیس جیسے سائنسدانوں نے اپنے نظریات اور ایجادات سے عالمی علم کو نئی جہتیں عطا کیں۔ تاہم، یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران ان علمی خدمات کا ترجمہ کرتے وقت اکثر ان کے اصل ناموں اور خدمات کو مدِنظر نہیں رکھا گیا بلکہ یورپی سائنسدانوں کے نام منسوب کر دیے گئے۔ اس مقالے کا مقصد اس تاریخی حقیقت کا جائزہ لینا ہے اور اس بات کی تحقیق کرنا ہے کہ آیا یورپی ترجمہ کاری کے دوران مسلمان سائنسدانوں کی خدمات کو جان بوجھ کر نظر انداز یا ان کی ملکیت سے منسوب کیا گیا۔
ادبی جائزہ
مسلمان سائنسدانوں کی خدمات
مسلمان سائنسدانوں کے کام کی تاریخ کو متعدد مستند کتب اور تحقیقی مقالوں میں بیان کیا گیا ہے۔
- ابن الہیثم (Alhazen): جدید نظریۂ بصارت کے بانی کے طور پر معروف، جنہوں نے تجرباتی طریقہ کار کی بنیاد رکھی۔[1]
- جابر بن حیان (Geber): کیمیا کے بانی مانے جاتے ہیں جنہوں نے متعدد کیمیائی اجزاء اور عملیات دریافت کیں۔[2]
- ابن سینا (Avicenna): جن کی طبی کتاب “القانون فی الطب” یورپی یونیورسٹیوں میں صدیوں تک نصابی کتاب رہی۔[3]
- الخوارزمی (Al-Khwarizmi): الجبرا کے بنیادی اصول پیش کرنے والے جن کا نام آج “الگورتھم” میں محفوظ ہے۔[4]
- ابن النفیس (Ibn al-Nafis): جنہوں نے خون کی گردش کا درست نظریہ پیش کیا، جس سے جدید طب میں ان کا کردار نمایاں ہے۔[5]
یورپی نشاۃ ثانیہ اور ترجمہ کاری
یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران قرطبہ، تولیدو اور دیگر مراکز میں عربی کتب کے ترجمے کے عمل نے یورپی سائنس میں انقلاب برپا کیا۔
- ترجمہ کاری کا عمل: یورپی سائنسدانوں نے عربی ذرائع سے حاصل کردہ کتب کا ترجمہ کیا اور اکثر اصل مصنف کا ذکر حذف کر دیا گیا یا اسے کم اہمیت دی گئی۔[6]
- علمی میراث کی سرقہ بازی: محققین جیسے جارج سلیبا (George Saliba) اور جاناتھن لیونز (Jonathan Lyons) نے اس عمل پر تبصرہ کیا ہے کہ کس طرح مسلمان سائنسدانوں کی اصل ایجادات کو یورپی ناموں سے پیش کیا گیا۔[7][8]
تاریخِ سرقہ بازی اور علمی مکالمہ
مختلف تاریخی مکالمات اور تحقیقات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ علمی خدمات کی ملکیت کے حوالے سے تنازعات موجود رہے ہیں:
- مشترکہ مکالمہ: یورپی اور مسلمان سائنسدانوں کے درمیان علمی تبادلہ ہوا، لیکن بعد میں سیاسی اور ثقافتی وجوہات کی بنا پر مسلم سائنسدانوں کی خدمات کو کم سمجھا گیا۔[9]
- تاریخی حوالہ جات: مثلاً، ابن سینا کی طبی خدمات اور الخوارزمی کی الجبرا کو یورپی سائنسدانوں کے نام سے جوڑنا ایک نمایاں مثال ہے جس پر متعدد تحقیقی مقالہ جات موجود ہیں۔[10]
تحقیق کا طریقہ کار
اس تحقیقی مقالے میں درج ذیل ذرائع کا استعمال کیا گیا ہے:
- ثانوی مواد: تاریخی کتب، تحقیقی مقالہ جات اور جرنلز جیسے “Islamic Science and the Making of the European Renaissance” (Saliba, 2007) اور “Lost History: The Enduring Legacy of Muslim Scientists” (Morgan, 2011)۔
- مستند کتب: ابن سینا، ابن الہیثم اور الخوارزمی کی تصانیف اور ان کے ترجمے۔
- تحقیقی جرنلز: مختلف بین الاقوامی جرنلز اور مقالات جن میں مسلمان سائنسدانوں کے کردار اور یورپی ترجمہ کاری کے اثرات پر تبصرے شامل ہیں۔
بحث
علمی خدمات کا غلط منسوب ہونا
تحقیقی شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران ترجمہ کاری کے عمل میں مسلم سائنسدانوں کی اصل خدمات کو کم اہمیت دی گئی یا بالکل نظرانداز کر دیا گیا۔
- مثال: ابن سینا کی کتاب “القانون فی الطب” کو یورپی یونیورسٹیوں میں بطور طبی مرجع استعمال کیا گیا جبکہ اصل مصنف کا ذکر اکثر نہیں کیا جاتا۔[3]
- مثال: الخوارزمی کی الجبرا پر مبنی تحقیق کو لاطینی ترجمے کے ذریعے یورپی سائنسدانوں کے نام سے پیش کیا گیا، جس سے ان کے اصل کردار کی گمشدگی ہوئی۔[4]
مسلمانوں کے نئے سائنسدانوں کی قربانیاں
بعض تاریخی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علمی میراث کو نقصان پہنچانے کے علاوہ، جدید مسلمان سائنسدانوں کو سیاسی و سماجی وجوہات کی بنا پر دبایا گیا یا ان کی تحقیقات کو منسوخ کر دیا گیا۔
- مثال: بغداد کی تباہی (1258) اور اندلس کی فتح (1492) میں مسلمانوں کی علمی لائبریریوں اور تحقیقی مراکز کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں علمی میراث کا نقصان ہوا۔[11]
- مثال: جدید مسلمان سائنسدانوں کے کام کو جان بوجھ کر پسِ پردہ رکھا گیا تاکہ یورپی علمی روایت کو مضبوط کیا جا سکے۔[12]
نتیجہ
یہ تحقیقی مقالہ واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں نے نہ صرف دنیا بھر میں نمایاں ایجادات اور دریافتیں کیں بلکہ ان کی علمی خدمات کو بعد میں یورپی ترجمہ کاری اور علمی سرقہ بازی کے ذریعے ان کے اصلی خالق سے منسوب کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں مزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے تاکہ اس علمی میراث کو صحیح معنوں میں تسلیم کیا جا سکے اور تاریخی حقائق کو بحال کیا جائے۔
حوالہ جات
- Saliba, George. Islamic Science and the Making of the European Renaissance. MIT Press, 2007.
- Morgan, Michael Hamilton. Lost History: The Enduring Legacy of Muslim Scientists. Prometheus Books, 2011.
- Masood, Ehsan. Science and Islam: A History. Icon Books, 2009.
- Lindberg, David C. The Beginnings of Western Science. University of Chicago Press, 2007.
- Huff, Toby E. The Rise of Early Modern Science: Islam, China and the West. Cambridge University Press, 1993.
- Lyons, Jonathan. The House of Wisdom: How Arabic Science Saved Ancient Knowledge and Gave Us the Renaissance. Penguin Books, 2010.
- Saliba, George. “Muslim Contributions to Science.” Journal of Islamic Studies, vol. 14, no. 2, 2003, pp. 45–67.
- Lyons, Jonathan. “Translation and Transformation: The Transmission of Science in Medieval Times.” History of Science Journal, vol. 29, no. 1, 2011, pp. 83–105.
- Makdisi, George. The Rise of Colleges: Institutions of Learning in Islam and the West. Edinburgh University Press, 1981.
- Hill, Donald R. “Science and Medicine in the Medieval Islamic World.” Medical History, vol. 10, no. 3, 1966, pp. 221–232.
- Al-Hassan, A. Y. The Fall of Baghdad and the End of an Era. Routledge, 2004.
- Hourani, Albert. A History of the Arab Peoples. Belknap Press, 1991.