سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی
سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی

تزکرہ قلندریہ
سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ

از گوہر خاکی ۔۔۔ سگ بارگاہ حسینیہ قلندریہ ۔۔۔۔

بَرِّ کوچک پاک و ہند میں سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتیؒ کا شمار انیسویں صدی عیسوی کی نادرۂ روزگار شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ وہ زمرۂ صوفیہ کے ایک باکمال، ذہین و فطین، زندہ دل، خوش مذاق، آزاد منش، جہاں گشت اور صاحبِ نظر بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزارا۔ اثنائے سیاحت میں ہر نوع اور ہر طبقے کے افراد سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو عجیب و غریب تجربات حاصل ہوئے۔ عمر کے آخری اٹھارہ سال انھوں نے پانی پت (بھارت) میں گزارے۔ ان کے اخلاقِ حسنہ اور روحانی کمالات نے انھیں تھوڑے ہی عرصہ میں بے شمار لوگوں کا مرجعِ عقیدت بنا دیا اور ان کے مریدانِ با صفا کا ایک وسیع حلقہ قائم ہو گیا مگر ان کو ملک گیر شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب ان کی وفات کے بعد ان کے اقوال و ارشادات اور حالاتِ زندگی پر مشتمل ایک کتاب ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آئی۔ اپنی بعض خصوصیات کی بدولت اس کتاب کو نہ صرف بے پناہ مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی بلکہ اردو ادب میں بھی اسے ایک نمایاں مقام حاصل ہو گیا ہے۔ ’’تلامذۂ غالب‘‘ کے فاضل مؤلّف آنجہانی مالک رام کی رائے میں اس کتاب کی دلکشی کی کما حقہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ زبان کے لحاظ سے ایسی پرخلوص کتابیں اردو میں بہت کم تصنیف ہوئی ہیں۔ (تلامذۂ غالب)
اسی طرح صاحبِ ’’حیاتِ غالب‘‘ شیخ محمد اکرم مرحوم کی یہ رائے بھی بالکل درست ہے کہ ’’ہندوستانی صوفیہ کے تذکروں میں شاید ہی کوئی کتاب ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ سے زیادہ دلچسپ ہو گی۔ (حیاتِ غالب)
’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ پر سب سے جامع تبصرہ اس کی طبع ہفتم کے آغاز میں مولانا محمد رضی عثمانی (بن حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اﷲ) نے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تذکرۂ غوثیہ ایک مشہور و مقبول کتاب ہے جس میں حضرت مولانا غوث علی شاہ قلندری قادری کے حالات و بابرکات اور ملفوظات و مقالاتِ طیبات کو ایسے دلنشین انداز میں لکھا گیا ہے کہ کتاب شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر ہاتھ سے رکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ حضرت کے سفر نامے، بزرگوں، علماء و مشائخ، مجاذیب، اولیاء اﷲ کی دلچسپ حکایتیں اور مقالاتِ حکمت، اپنے زمانے کے مشاہیر سے ملاقاتوں اور تصوف و اخلاق کی چاشنی کے علاوہ لطفِ زبان و ندرتِ بیان، زبان کی سادگی اور حکایت کی دلفریبی نے ایک ایسا ادبی گلدستہ تیار کیا ہے جس سے پڑھنے والا دوگونہ لطف اندوز ہوتا ہے اور بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان میں اس شان کی اور کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اور یہ کتاب اردو زبان کے ادبِ عالیہ میں شمار ہونے کے لائق ہے۔‘‘
اس تذکرہ کے مطابق شاہ صاحبؒ موصوف مونگیر ضلع بہار کے قصبہ استھاواں میں بروز جمعہ ۴؍ رمضان المبارک ۱۲۱۹ھ مطابق ۷؍ دسمبر ۱۸۰۴ء کو سادات کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ جدِّ امجد نے خورشید علی نام رکھا۔ والدِ بزرگوار نے ابوالحسن اور والدہ نے غوث علی۔ سلسلۂ نسب ۱۷ واسطوں سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تک پہنچتا ہے۔ ان کے اجداد میں سب سے پہلے مخدوم سید محمد غوث الحسنی الجیلانی ہندوستان میں وارد ہوئے۔ وہ روم سے براہِ خراسان ملتان آئے وہاں سے اوچہ (اُچّ) تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی۔
شاہ صاحب موصوف دس برس تک گھر پر تعلیم پاتے رہے۔ اس دوران میں انھوں نے نصف قرآن شریف حفظ کر لیا اور نصف ناظرہ پڑھا۔ فارسی کی تعلیم سکندر نامہ تک اپنی سوتیلی والدہ سے اور عربی صرف و نحو کی تعلیم اپنے سوتیلے نانا مولوی محمد حیات سے حاصل کی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہندی اور سنسکرت کی تعلیم بھی اپنے رضاعی والد پنڈت رام سیہنی سے حاصل کرتے رہے، غرض چھوٹی عمر ہی میں انھیں عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت پر خاصا عبور حاصل ہو گیا۔ اس کے بعد ان کے والدِ بزرگوار نے انھیں اپنے پاس دہلی بلا لیا جہاں وہ بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ ان دنوں شہر دہلی شاہ عبدالعزیز محدثؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، شاہ اسحاق اور مولانا فضلِ امام خیر آبادیؒ جیسے سر آمدِ روزگار بزرگوں کے انوارِ فیوض سے جگمگا رہا تھا۔ ایسے اکابر علماء کی محض آنکھیں دیکھنا ہی بہت بڑی سعادت تھی لیکن شاہ غوث علی کی خوش بختی کہ انھیں ان بزرگوں کا حلقۂ درس میسر آ گیا چنانچہ انھوں نے علم حدیث شاہ عبدالعزیزؒ اور شاہ اسحاق سے حاصل کیا۔ ایک سبق کافیہ کا شاہ اسماعیلؒ سے پڑھا اور دوسرے علوم کی کتابیں مولانا فضلِ امام سے پڑھیں۔ ان کے صاحبزادے مولانا فضلِ حق خیر آبادی شاہ صاحب موصوف کے ہم سبق تھے۔ مولانا فضلِ امام، شاہ غوث علیؒ کے حال پر نہایت شفقت فرماتے تھے اس تعلق خاطر کا اندازہ شاہ صاحب کے اس بیان سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
’’یہ مبرور و مغفور (یعنی مولانا فضلِ امام) ہمارے حال پر نہایت شفقت فرماتے تھے اور ان کی اہلیہ کو بھی مثال مادرِ مشفقہ کے محبت تھی۔ حتیٰ کہ بغیر ہمارے کھانا تناول نہ فرمایا کرتی تھیں۔ ہم ان کے ساتھ پٹیالہ بھی گئے اور ضروری کتبِ دینیہ و منطق پڑھتے رہے، جب وہ عالَمِ قُدس کو رحلت فرما ہوئے تو ہم کو نہایت رنج و الم ہوا۔ اس دن سے کتابیں بالائے طاق رکھ دیں کہ اس شفقت سے کوئی پڑھائے گا نہ ہم پڑھیں گے۔
اسی زمانے میں شاہ صاحبؒ نے دہلی کے مشہور خوش نویس میر پنجہ کش دہلوی سے فنِ خوشنویسی بھی سیکھا۔ تحصیل و تکمیلِ علوم کے بعد شاہ صاحب نے اپنے خاندان کے رواج کے مطابق اپنے والدِ بزرگوار کی بیعت کی اور ان سے علومِ باطنی حاصل کیے۔ کچھ عرصہ بعد ان کے والد انھیں بابری لے گئے اور وہاں ایک قادری بزرگ میر اعظم علی شاہ سے بیعت کرایا۔ شاہ صاحبؒ مدتوں ان کا فیضِ صحبت اٹھاتے رہے پھر انھی کے ارشاد کے مطابق میرٹھ گئے اور وہاں کے ایک نامور بزرگ مولوی حبیب اﷲ شاہ صاحب سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور ایک برس ان کی خدمت میں رہ کر راہِ سلوک طے کرتے رہے۔ ظاہری و باطنی علوم کی تحصیل کے بعد انھوں نے سیر و سیاحت اختیار کی اور سالہا سال تک برِّ کوچک پاک و ہند کے ایک ایک شہر اور گاؤں میں قلندرانہ شان سے خاک چھانتے رہے۔ اسی دوران میں دوبار حج بیت اﷲ سے بھی مشرف ہوئے۔ ساٹھ برس کی عمر میں پانی پت آ کر مستقل قیام فرمایا اور یہیں شبِ دو شنبہ ۲۶ ربیع الاوّل ۱۲۹۷ھ مطابق مارچ ۱۸۸۰ء کو عالَمِ جاوداں کے راہروہوئے۔ کُل ۷۸ سال چھے مہینے اور کچھ دن عمر پائی۔ اس میں سے ۱۸ سال سات مہینے اور چھے دن بلدۂ پانی پت میں گزارے۔ چونکہ ساری عمر متابلانہ زندگی کی بندشوں سے آزاد رہے اس لیے صُلبی اولاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ اولادِ معنوی انھوں نے ہزاروں مریدوں اور عقیدت مندوں کی صورت میں اپنی یاد گار چھوڑی۔
شاہ غوث علیؒ کی وفات کے بعد ان کے مریدِ خاص سید گل حسن شاہ نے اپنے مرشد کے حالاتِ زندگی اور افکار و اقوال کو بڑی محنت اور سلیقے سے ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ کی صورت میں مرتب کیا۔
تذکرۂ غوثیہ میں جگہ جگہ بہت ہی دلچسپ حکایات اور علمی و ادبی لطائف ملتے ہیں۔ ان میں اُس دور کی کئی مشہور شخصیتوں کا ذکر بھی آتا ہے اور کئی فقیروں اور ہندو جوگیوں کے خرقِ عادات کے عجیب و غریب واقعات بھی پڑھنے میں آتے ہیں۔ ان لطائف اور حکایات کو تین حصوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جو شاہ غوث علیؒ نے بطور واقعہ بیان کی ہیں دوسرے وہ جو انھوں نے دوسروں کی زبان سے سن کر نقل کی ہیں، تیسرے عام روایتیں جن کا نمونہ مثنوی مولانا رومؒ، گلستانِ سعدی، انوار سہیلی وغیرہ میں ملتا ہے۔ ان میں سے چند روایات ایسی ہیں جو پایۂ ثقاہت سے گری ہوئی ہیں اور تہذیب ان کے نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر تذکرۂ غوثیہ مرتب کرتے وقت انھیں ترک کر دیا جاتا تو کتاب کی علمی حیثیت اور افادیت میں اضافہ ہو جاتا۔ اسی طرح کچھ ایسے واقعات جو شاہ غوث علیؒ نے بطور آپ بیتی بیان کیے ہیں۔۔۔ جاری۔۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here