سیریا کی بشار الاسد سرکار سے مغربی دنیا کی دشمنی اور دہشت گردوں کو سپورٹ 

 

ڈاکٹر میم الف نعیمی

(چیف ایڈیٹر) 

سیریا میں بشار الاسد کی حکومت کی مغربی دنیا کے ساتھ دشمنی ایک پیچیدہ اور تاریخی مسئلہ ہے جس میں کئی سیاسی، جغرافیائی، اور نظریاتی عوامل دخیل ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس دشمنی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے، بشار الاسد کے فلسطین کے مسئلے پر موقف، اسرائیل کے حوالے سے اس کی پالیسی، ایران اور روس کی سیریا میں مداخلت اور ان سب عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی ممالک کی سیریا کے بارے میں پالیسی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

 1. بشار الاسد کی حکومت اور مغربی دنیا کی دشمنی کا آغاز

بشار الاسد کی حکومت کا مغربی دنیا سے تعلق ابتدا سے ہی کشیدہ رہا ہے۔ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کی حکومت کے دوران بھی سیریا اور مغربی ممالک کے تعلقات ناپسندیدہ رہے تھے۔ حافظ الاسد کی حکومت نے لبنان میں حزب اللہ کی حمایت کی، اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی، اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کیا۔ بشار الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی یہی پالیسی جاری رہی، جس نے سیریا کو مغربی ممالک کے لیے ایک دشمن ملک بنا دیا۔

 2. شام کی خانہ جنگی اور مغربی ممالک کی مداخلت

2011 میں شروع ہونے والی شام کی خانہ جنگی نے اس دشمنی کو مزید بڑھا دیا۔ اس جنگ میں مغربی ممالک نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مختلف دہشت گرد گروپوں کی حمایت کی، جن میں سعودی عرب، ترکی، اور قطر جیسے ممالک شامل تھے۔ مغربی ممالک بشار الاسد کو عوامی احتجاجوں کے دوران سیاسی اصلاحات کرنے کی ترغیب دے رہے تھے، لیکن بشار الاسد نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے سختی سے انکار کیا۔ اس نے دہشت گردوں کو دشمن قرار دیا اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔

مغربی ممالک بشار الاسد کے خلاف فوجی مداخلت کرنے کی کوشش کرتے رہے، جیسے کہ 2013 میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام پر حملے کی دھمکی دینا۔ اسی دوران روس اور ایران نے بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کی، جس سے مغربی دنیا کے ساتھ دشمنی اور بھی گہری ہوگئی۔ مغربی ممالک کے مطابق بشار الاسد کی حکومت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث تھی، اور اس کے خلاف عالمی برادری کو کارروائی کرنی چاہیے تھی۔

 3. ایران اور روس کی مداخلت

سیریا کی جنگ میں ایران اور روس کی مداخلت بشار الاسد کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ روس نے فوجی مداخلت کرکے سیریا کی حکومت کو بچایا، جبکہ ایران نے اس کی مالی اور فوجی مدد فراہم کی۔ ایران کا سیریا میں موجودگی کا مقصد اسرائیل کے قریب اپنی موجودگی بڑھانا اور اپنی مشرق وسطیٰ میں پوزیشن مستحکم کرنا تھا۔ روس نے بھی سیریا میں اپنی موجودگی کے ذریعے اپنی جغرافیائی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کیا اور مغربی ممالک کے اثر و رسوخ کو چیلنج کیا۔

مغربی دنیا اس بات سے خوفزدہ ہے کہ ایران اور روس کی سیریا میں موجودگی ان کے اثر و رسوخ کو کمزور کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، ایران کا شام میں اپنی فوجی موجودگی اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کی حمایت کرنا مغربی ممالک کے لیے ایک سنگین خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لیے مغربی ممالک بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے مسلسل کوششیں کرتے رہے ہیں، مگر روس اور ایران کی مدد سے یہ کوششیں ناکام ہوگئیں۔

 4. ابراہیم معاہدے اور سیریا کی الگ تھلگ پوزیشن

ابراہیم معاہدے 2020 میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کے معمول پر آنے کا ایک سنگین اقدام تھا، جس میں امریکہ نے اہم کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، بحرین، اور دیگر عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی آئی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں سیریا کو ایک الگ تھلگ پوزیشن پر رکھا گیا، کیونکہ بشار الاسد نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے انکار کیا اور فلسطین کے مسئلے پر اپنی پالیسی پر اصرار کیا۔ سیریا نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی نوعیت کے تعلقات کو تسلیم نہیں کیا، اور اس کے نتیجے میں اسرائیل اور مغربی ممالک نے سیریا کو عالمی سطح پر مزید تنہا کرنے کی کوشش کی۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معمول پر آنا، خاص طور پر امریکہ کی طرف سے، سیریا کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ بشار الاسد کی حکومت نے فلسطینی عوام کے حق میں مسلسل آواز اٹھائی اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ مغربی دنیا کے لیے اس کا مطلب یہ تھا کہ سیریا اب بھی ایک “دشمن” ملک کی حیثیت میں موجود ہے، جو اسرائیل کے خلاف موقف اپنائے ہوئے ہے۔

 5. بشار الاسد کا فلسطین کے مسئلے پر موقف

بشار الاسد کا فلسطین کے مسئلے پر موقف بھی مغربی دنیا سے دشمنی کا ایک اہم سبب ہے۔ سیریا نے ہمیشہ فلسطین کے عوام کی حمایت کی ہے اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ بشار الاسد کا یہ موقف مغربی ممالک کو پسند نہیں آیا، خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کو، جو فلسطین کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بشار الاسد نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عالمی برادری کی اولین ترجیح ہونا چاہیے، اور اسرائیل کو فلسطینیوں کی زمین سے بے دخل کرنے کے لیے عالمی سطح پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے۔

 6. دہشت گردوں کی حمایت اور مغربی دنیا کا ردعمل

سیریا کی حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کی حمایت کی ہے یا کم از کم بعض دہشت گرد گروپوں کے ساتھ غیر رسمی تعلقات قائم کیے ہیں۔ تاہم، بشار الاسد کی حکومت نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، اور مغربی ممالک کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق، مغربی ممالک ان دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سیریا میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی دن دیہاڑے سامنے آئی ہے کہ مغربی دنیا ایک طرف تو جہاد کے نام پر دہشت گردی کے خلاف لڑنے اور مظلوموں کی حمایت کا دعویٰ کرتی ہے، مگر دوسری طرف وہ سیریا میں دہشت گردوں کی مالی اور فوجی مدد فراہم کرتی ہے۔ مغربی ممالک نے سیریا کے دہشت گرد گروپوں کو اسلحہ فراہم کیا اور انہیں سیاسی حمایت دی، جب کہ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور دنیا بھر میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ منافقت اس وقت کھل کر سامنے آئی ہے جب مغربی ممالک نے سیریا میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کی مدد کی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصد دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ اپنے جغرافیائی اور سیاسی مفادات کی حفاظت تھا۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ سیریا کے دہشت گرد گروہ، جو اپنے ہی ملک کی فوج سے لڑ رہے ہیں، وہ غزہ جیسے قریبی علاقے میں فلسطینیوں کی مدد کے لیے کیوں نہیں جا رہے؟ غزہ جہاں اسرائیل کی قابض حکومت کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد جاری ہے، وہاں ان دہشت گرد گروپوں کی خاموشی اور عدم مداخلت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان گروپوں کا مقصد فلسطین کے مسئلے پر کچھ نہیں ہے، بلکہ ان کی جنگ صرف اپنے مفادات کے لیے ہے۔ مغربی دنیا بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان دہشت گردوں کو اپنے مفادات کے لیے حمایت فراہم کرتی ہے۔

 نتیجہ

بشار الاسد کی حکومت کی مغربی دنیا سے دشمنی کئی عوامل پر مبنی ہے، جن میں اس کا فلسطین کے مسئلے پر موقف، اسرائیل کے خلاف پالیسی، اور ایران و روس کی حمایت شامل ہیں۔ سیریا کی جنگ نے اس دشمنی کو مزید گہرا کر دیا ہے، اور مغربی ممالک نے بشار الاسد کی حکومت کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، روس اور ایران کی مداخلت نے سیریا کی حکومت کو بچا لیا ہے اور اس دشمنی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس تمام صورتحال میں بشار الاسد کا موقف اور پالیسی مغربی دنیا کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، اور یہ دشمنی مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here