کیا علمی اختلاف کرنے سے ہی آپ “دین” سے خارج ہیں؟
امت مسلمہ کے لئے ناسور کون؟
تحریر – ڈاکٹر میم الف نعیمی
اختلاف أمتي رحمة ۔ محدثین نے اسے حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے جیسے نصر مقدسی نے کتاب الحجة میں ، خطابی نے غریب الحدیث میں اور امام بیہقی نے رسالة اشعریہ میں ۔ (جامع الأحادیث للسیوطی ۱:۱۲۴ حدیث نمبر: ۷۰۶ اور کشف الخفاء ۱:۶۴-۶۶ حدیث نمبر، ۱۵۳)
اختلاف امتی رحمة ۔
ترجمہ : میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔ (کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، 10: 136، الرقم: 28686)
اگر ایک ہی راستہ ہو تو اس میں مشکلات ہوتی ہیں ۔ لہذا فروعی مسائل میں اختلاف امت کے لیے رحمت ہے اور اصول میں اختلاف امت کےلیے زحمت ہے ۔
ہمارے اکابرین نے ایک دوسرے سے بہت اختلاف کئے ہیں یہاں تفصیل میں جانا مقصود نہیں ہے جو اہل علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں اختلاف نہ ہو
بہر حال امت کا اختلاف رحمت ہے بھارتیہ علماء اہل سنت میں شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی کچھوچھوی دامت برکاتہم القدسیہ اور علامہ اختر رضا خان ازہری صاحب کا اختلاف کافی مشہور رہا ہے جس کے بعد اشرفیوں اور رضویوں کے تعلقات تلخ ہو گئے تھے
ایک مدت بعد اس تلخی کو دور کرنے کے لئے چاشنی تیار کی منانی میاں نے غازی ملت کو عرس رضوی میں شرکت کی دعوت دے کر
عرس فاضل بریلوی کے خاص پروگرام کا انعقاد خانقاہ قادریہ نوریہ رضویہ کے سجادہ نشین حضرت سبحانی میاں صاحب قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ و شہزادہ فاضل بریلوی مولانا منان رضا خاں عرف منانی میاں صاحب قبلہ نے بھی بڑے اچھے انداز سے فرمایا جس میں امت مسلمہ کو جوڑنے اور ماضی کی باتوں کو بھول کر سارے اختلافات کو دور کرنے کی بات کی گئی جو کہ لائق تحسین و تقلید قدم ہے
اب ذرا ماضی قریب کی تاریخ بریلی پر نظر ڈالئے اختلافات کا دور علامہ ریحان رضا خان صاحبِ سجادہ درگاہ فاضل بریلوی اور ازہری میاں کے اختلاف سے شروع ہوتا ہے صاحب سجادہ کی وفات کے بعد سبحانی میاں جب سجادگی کے منصب پر فائز ہوئے اختلاف برقرار رہا اس کے بعد شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی کچھوچھوی دامت برکاتہم القدسیہ سے ٹی وی ویڈیو کے مسئلے کو لیکر اختلاف ہوا اس مسئلے میں دونوں کا موقف بالکل ایک دوسرے کے بر عکس تھا بہتر تو یہ تھا کہ اس اختلاف کو اختلاف امت رحمۃ رہنے دیا جاتا مگر بیچ والوں نے نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کی کہ پھر وہ علمی اختلاف خالص علمی نہ رہ کر ذاتیات پر آ گیا دونوں اطراف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی علامہ ضیاء المصطفی ازہری میاں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے حالات کے تناظر میں ٹی وی ویڈیو کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اکثر علماء جو حرام کے قائل تھے انہوں نے ضرورتاً ہی صحیح اس مسئلے سے رجوع کر لیا مگر علامہ ضیاء المصطفی صاحب نے ازہری میاں صاحب کو رجوع نہ کرنے دیا یہاں تک کہ یہ مسئلہ دونوں طرف سے ناک کا سوال بن گیا اس کے بعد تو پھر علامہ ضیاء المصطفی صاحب نے کبھی بھی مرحوم علامہ ازہری میاں صاحب کو چین سے نہ رہنے دیا ہمیشہ اختلافات میں الجھائے رکھا
علامہ ضیاء المصطفی صاحب چاہتے تو تھے کہ وہ خود قاضی القضاۃ فی الہند بن جائیں مگر وقت کی نزاکت کے تناظر میں دل میں ٹیس برقرار رکھتے ہوئے خود نائب قاضی القضاۃ فی الہند بنے رہے اور علامہ ازہری صاحب کو ربر اسٹیمپ کی طرح اپنے مفادات کے لئے خوب استعمال کیا علامہ ازہری میاں صاحب کی رحلت کے بعد علامہ ضیاء المصطفی صاحب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے آپ کو بریلوی جماعت میں ثابت کرنا چاہا تاکہ قاضی القضاۃ فی الہند بننے کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے اس کے لیے ضرورت تھی کہ کسی کو بلی کا بکرا بنا کر اپنی فضیلت علمی کا اظہار کیا جائے اور علامہ ثاقب شامی پر داڑھی کٹوانے کا الزام عائد کرتے ہوئے فاسق ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا
علامہ ثاقب شامی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے موقف کو رکھا شافعی المذہب ہونے کی بنا پر اس فتوے کو ہوا میں اڑا دیا اور ایسے دلائل پیش کئے کہ علامہ ضیاء المصطفی صاحب کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا
عوام و خواص میں ہوئی اس فضیحت اور بے عزتی سے گھبرائے علامہ ضیاء المصطفی صاحب نے علمی لیاقت کو جانتے ہوئے بھی چند اپنے ہم خیال گروپ کی موجودگی میں آنا فاناً میں ایک بار پھر اپنی دعویداری چھوڑ تے ہوئے بدل نخواستہ عسجد رضا خان صاحب کو قاضی القضاۃ فی الہند بنانے کا اعلان کر دیا حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ علماء بریلی میں کتنے لوگوں نے اس منصب پر عسجد رضا خان صاحب کو قبول کیا خود شہزادہ فاضلِ بریلوی مولانا منان رضا خان صاحب نے ہی انہیں قبول نہیں کیا.
یہ سب کچھ ماضی میں ہوا اور ازہری میاں صاحب کی وفات کے بعد کوئی بڑا اختلاف باقی بھی نہ رہا تھا ٢٠١٤ کے بعد سے جو ملک میں اقلیتی طبقوں کے خلاف حکومتی پالیسیاں بنی تو سب نے مل کر اختلافات سے خاموشی اختیار لی جو کہ دور حاضر میں وقت کا تقاضا بھی تھا تھوڑا بہت عوام میں ایک دوسرے کو رافضی یا خارجی کہہ دینے کے معاملات کو اگر چھوڑ دیا جائے تو کوئی اختلافی مسئلہ نہیں تھا جس میں اہل سنت آپس ہی میں دست و گریباں ہوں مگر عرس رضوی کے موقع پر مولانا منانی میاں صاحب نے غازی ملت سید محمد ہاشمی میاں صاحب قبلہ کو جیسے ہی اپنے جلسے میں خطاب کے لئے مدعو کیا بس یہی بات باعث اختلاف ہو گئی حالانکہ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا
لیکن جماعت رضائے مصطفےٰ کے کارکنوں نے انٹرنیٹ کی دنیا میں کہرام مچا دیا اور غازی ملت سید محمد ہاشمی میاں صاحب کو ایسی ایسی گالیاں دی گئیں کہ بیان نہیں کیا جا سکتا ہے بہر حال چند پوسٹر اس حوالے سے عسجد رضا خان صاحب کے نام سے شائع ہونے جس میں ہاشمی میاں صاحب کو گالیاں دینے سے برات کا اظہار کیا گیا مگر وہ بھی جعلی نکلے
خیر اللہ اللہ کرکے عرس رضوی کی وہ گھڑی آئی جس کا سب لوگوں کو انتظار تھا اور سب کچھ بحسن و خوبی چل رہا تھا مگر منانی میاں کے اسٹیج پر ہاشمی میاں کی شرکت کی بوکھلاہٹ میں مولانا غیاث الدین کالپی نے جو ہفوات بکیں اس سے ایک نئے اختلاف کا دروازہ کھول دیا ملاحظہ فرمائیں
عرس فاضل بریلوی میں جامعۃ الرضا کے اسٹیج پر پروگرام ہو رہا تھا جس کی قیادت عسجد رضا خان صاحب فرما رہے تھے حاضرین میں علامہ ضیاء المصطفی صاحب قبلہ گھوسوی بھی تشریف فرما تھے مائک پر مولانا غیاث الدین صاحب کالپی تقریر فرما رہے تھے
آپ کہتے ہیں کہ
“اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمۃ والرضوان پر فاضل بریلوی کا احسان ہے کہ نوری میاں کی سفارش کر آپ کو خلافت دلوائی؟”
اور اہل سنت میں جو ازہری میاں کا نہیں وہ “بریلوی” نہیں گھسپیٹھیا ہے.
ازہری میاں سے جنہوں نے اختلاف کئے ہیں پہلے وہ جرم قبول کریں، ضمانت کرائیں، پھر ان کو بریلویت (خود ساختہ) میں گھر واپسی کرائی جائے گی.
اور جیسا کہ کچھ لوگ ہمارے علامہ ازہری میاں سے مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں وہ عرس میں نہ آئیں ورنہ ان کو ہاتھ پکڑ کر اسٹیج سے اتارا جائے گا.
ناظرین! یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اعلی حضرت اشرفی میاں کی کھلی گستاخی ہے جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو مرشدِ فاضل بریلوی سید آل رسول مارہروی سے تو خلافت حاصل ہے مگر آپ نے کبھی نور میاں سے خلافت لی ہی نہیں جیسا کہ اس دور کے علماء اور سونح نگاروں کی کتب سے ظاہر ہے.
اہل سنت و جماعت میں عرس ہوتے رہتے ہیں لوگ تقریر بھی کرتے رہتے ہیں مگر یہاں آپ کو بتانا مقصود ہے کہ بھارت کے تشویشناک حالات جس میں مسلمان بہر صورت دشمنانِ اسلام کے نشانے پر ہیں انہیں صرف مسلمان سمجھ کر مارا جا رہا ہے گھروں کو بذریعہ بلڈوزر مسمار کیا جا رہا ہے کیا اب بھی جامعۃالرضا میں ہونے والے عرس کا مقصد صرف انتشار پھیلانا اور جماعت کو توڑنا ہی ہے؟
اس وقت جب یہ ہفوات بکی جا رہی تھیں اسٹیج پر سب موجود تھے جن کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے کیا حاضرین پر واجب نہیں تھا کہ مولانا غیاث الدین کو روکتے اور اتحاد کی بات کرنے کی تلقین کرتے.
علامہ ضیاء المصطفی صاحب کا تو مزاج ہی اختلاف کو پروان چڑھانے کا ہے جیسے باپ کو زندگی بھر اختلافات میں الجھائے رکھا کیا آپ بیٹے کو بھی اسی طرح اپنا آلہ کار بنا کر رکھنا چاہتے ہیں؟
کیا یہ امت مسلمہ پر ظلم نہیں ہے کہ فتنے کی آگ سے نکلتی ہوئی جماعت اہل سنت کو پھر نئے فتنے کی نذر کر دیا گیا .؟
منانی میاں نے اپنا کام کر دیا تھا رضوی اشرفی اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی تھی ہاشمی میاں کو مدعو کر ماضی کی روش کو زندگی دینی چاہی مگر یہ علامہ ضیاء المصطفی گھوسوی صاحب کو کہاں منظور تھا اپنے پروردہ مولوی غیاث الدین کے ذریعے فتنہ کی ایک ایسی چنگاری چھوڑی کہ پھر ایک نئے اختلافی دور کا آغاز کر دیا.
محدث کبیر کی اختلاف پسندی کی اصل وجہ
جس طرح بھاجپائی لیڈر ہندوستانی عوام کو ہر طریقہ سے نئے نئے فتنوں میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ کوئی بھی ان سے بے روزگاری، مہنگائی وغیرہ کے ضروری مطالبات نہ کر سکے اسی طرح مذکورہ نائب قاضی القضاۃ فی الہند بھی ایک مدت سے امت مسلمہ کو اشرفی رضوی کے ساتھ رافضی خارجی جیسے بے سر پیر کے اختلافات میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ عوام ان بڑے بڑے القابات کے حاملین سے قوم کے لئے کئے گئے تعمیری کام کا حساب نہ مانگ لے قوم کا پڑھا لکھا غیور نوجوان طبقہ کہیں قوم کے نام نہاد رہنماؤں کی تعلیمی لیاقت کو نہ بھانپ لے اس لئے ایک مدت سے جیسے بھاجپائیوں نے مودی کے اندھ بھکتوں کو اس قدر مسحور کر رکھا ہے کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی عوام کو دیکھتا ہے ٹھیک اسی طرح محدث کبیر نے بھی مکھوٹوں کے پیچھے سے رضا کے دیوانوں کو انہیں سب مسائل میں الجھائے رکھا ہے رضا کے دیوانوں بلکہ بریلوی جماعت کو جو وہ چاہتے ہیں وہی دکھائی اور سنائی دیتا ہے.
الحمدللہ ہندوستان کا سنی مسلمان ہر خانقاہ کے ساتھ اتحاد و اتفاق چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ سب مل کر رہیں علمی اختلاف تو کریں مگر وہ اختلاف ذاتی نہ ہو، وہ اختلاف نفس کی شرارت کی بنیاد پر نہ ہو، اختلاف ہو تو صرف اور صرف اس میں امت مسلمہ کے مفادات پنہاں ہوں گویا کہ اختلاف امتی رحمۃ کی صحیح ترجمانی ہو کیا محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفی صاحب جیسے علماء بریلوی نہیں چاہتے کہ امت مسلمہ متحدہ ہو کر رہے آخر کب تک وہ لوگوں پر اپنے مفادات کی خاطر گمراہییت کے جھوٹے الزامات عائد کر جماعت سے خارج کرتے رہیں گے بریلویت ایک قلیل مدت میں پہونچ گئی ہے کیا وہ تنہا رہ جائیں گے تب جا کر ہوش آئے گا حافظ ملت فرماتے ہیں کہ
اتحاد زندگی ہے اختلاف موت ہے
مگر علامہ ضیاء المصطفی صاحب کو اختلاف میں زندگی نظر آتی ہے اور اتحاد میں موت کیوں کہ واقعی فتنہ پرور کی زندگی اختلاف کی آکسیجن پر ٹکی ہوئی ہے اگر اتحاد ہو گیا تو موت یقینی ہے.
بھارتیہ مسلمان جس حالت میں ہیں اسے دیکھتے ہوئے اب وقت آگیا ہے کہ قوم کے نوجوان علماء جو چاہتے ہیں کہ اغیار کے سامنے اب مزید ہماری رسوائی نہ ہو، ہم دشمنانِ اسلام کے لئے لقمہ تر نہ بن جائیں، اور ہماری ساری توانائی آپس ہی میں لڑ کر ضائع نہ ہو جائے تو انہیں ان فتنہ پرور بوڑھی قیادتوں کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا ایسے قوم کے لئے ناسور بن چکے علماء کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا، ان سانپوں کو پہچان کر ان کے پھن کچلنا ہوں گے تاکہ مزید قوم کو نہ ڈس سکیں چاہے وہ کتنے ہی بڑے خاندان سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں ہمیں اب کسی کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے نہیں دیکھنا ہوگا خاموش ہو چکی شخصیات کا منہ نہیں تاکنا ہوگا سوچ لو اب نہ کوئی آسمان سے تمہاری مدد کرنے آئیگا نہ کوئی صلاح الدین ایوبی دوبارہ پیدا ہوگا تمہیں خود قدم بڑھانا ہوگا اپنے اندر سے ہی کسی صلاح الدین ایوبی کو باہر لانا ہوگا تب کہیں جا کر اہل سنت کو سکون میسر ہوگا اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے پوری دنیا میں راہیں ہموار ہوں گی پھر دنیا تمہارے قدم چومے گی ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوگا. اللہ ہم سب کو ہر طرح کے فتنوں اور فتنہ پرور لوگوں سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین
٢٧ ستمبر ٢٠٢٢
بروز سہ شنبہ