PC: Social Media

ایم ایم رہبر

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، جس میں ہر شخص کو پر اعتبار سے زندگی گزارنے کا مکمل حق حاصل ہے، اگر کوئی مسلمان ہے تو ہندوستان کا آئین اس کو اسے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے، اسی طرح ہندو بھی یہاں اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور اس کے علاوہ جتنی بھی آستھائیں ہیں ہر آستھا کا ماننے والا یہاں بڑی عزت وشان سے اپنی زندگی گزارتا ہے ؛ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے آباو اجداد نے اس ملک کو ملکر گورے دشمن سے آزاد کرایا تھا اور یہ عہد کیا تھا کہ ہم سب یہاں ایک دوسرے کے ساتھ ملکر رہیں گے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں گے، جس وقت ہمارے اباواجداد یہ معاہدے کر رہے تھے عین اسی وقت اس ملک میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو یکسر اس بات کے مخالف تھے، ان کا صرف ایک ہی نظریہ تھا اوروہ تھا کہ کسی بھی طرح اس ملک کا بھائی چارہ ختم ہو دشمنیاں بڑھیں اور یہ ملک ہمارے قبضے میں آجائے۔

شومی قسمت ایل طویل مدت کے بعد آج وہی لوگ اقتدار پر براجمان ہیں جو اس ملک کوبرباد کردینا چاہتے ہیں، ہمارے اباواجداد نے جو خواب دیکھا تھا کہ یہاں ہر مذہب و ملت کا ماننے والا عزت وشان سے زندگی گزار سکے گا اس کے بر خلاف ان لوگوں کا گندہ نظریہ ہے کہ اس ملک میں صرف و صرف ہم رہیں گے اور کوئی نہیں اور ہماری اس بات کی تائید موجودہ حکومت کے رویے اور قانونی خلاف ورزی آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

حکومت وقت نے اپنے چاہنے والوں کے اس دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے کوئی ایسا حربہ نہیں چھوڑا کہ جسے استعمال کرکے انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو خوش نہ کیا ہو، موجودہ فرعونی حکومت یہ جانتی تھی کہ جب بھی ہم نے ملک کے آئین کی خلاف ورزی کی تو سب سے پہلے جو قوم ہماری مخالفت کرے گی وہ قوم مسلم ہوگی کیوں کہ اس قوم کی تاریخ ایسے واقعات سے پر ہے کہ ظلم کے خلاف سب سے مضبوط آواز اگر کسی قوم نے اٹھائی ہے تو وہ یہی قوم مسلم ہے لہذا ہمارے ظلم کے سامنے جو قوم سب سے پہلے سینہ سپر ہوکر کھڑی ہوجائے گی وہ یہی قوم مسلم ہے، اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس مسلم قوم کو بے دست و پا کرنے کا ایک ناپاک منصوبہ بشکل این آر سی و کیب تیار کیا اہل علم کو اب این آر سی  اور(کیب )سی اے اے کی تفصیل میں سمجھتا ہوں کہ بتانا ضروری نہیں کیوں کہ اس وقت ہر ذی شعور ان سازشوں سے لڑنے اور اپنی قوم اپنے ملک کو بچانے کے لیے سینہ سپر ہے۔

بہر حال اس موجودہ حکومت نے این آر سی اور سی اے اے کے ذریعے جو کھیل کھیلنا چاہا ہے وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں ، دلتوں، اور آدیواسیوں کو ملک سے در بدر کردیا جائے؛ اور ان کی املاک پر ناجائز قبضہ کرلیا جائے۔

جب یہ لوگ کمزور ہوجائیں گے تو پھر ہم جو چاہیں گے وہ کریں گے کوئی بھی ہم سے آنکھ ملاکر بات نہیں کرپائے گا؛ اپنی اسی خواہش کے مطابق انہوں نے این آر سی آسام نافذ کردیا، لیکن تمام قدرے دیکھیے جو گڈھا دوسروں کے لیے کھودا تھا، وہ اپنوں کی ہلاکت کا سبب بن گیا اور آسام میں زیادہ تعداد ان غیر ملکیوں کی ہو گئ جو بت سر اقتدار حکومت کے وفادار کہلاتے تھے۔

اس تمام صورت حال کے بعد آسام سے اس بل کی مخالفت میں آواز حق بلند ہونے لگے اور سی اے اے قانون بننے کے بعد یہ آواز اتنی بلند اور طاقت ور ہوگئ کہ حکومت اس بات کو لے کر پریشان ہے کہ ملک کے حالات کیسے قابو لائے جائیں ابھی اس پر ہلکی پھلکی توجہ ہی تھی کہ اچانک ہندوستان کا اہل علم طبقہ بلا امتیاز مسلک و ملت و رنگ ونسل ایک ہندوستانی ہونے کی بنیاد حکومت وقت کے پاس کیے ہوئے قانون مخالف بل کی پرزور مخلافت کرنے لگا اور آواز حق بلند کرنے لگا۔

ان تمام آوازوں میں جو سب سے طاقت ور آواز حق اٹھی وہ دہلی کی عظیم یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بیدار مغز اور شیر دل طلبہ کی طرف سے اٹھی، جامعہ ملیہ اسلامیہ سےطاٹھی اس آواز کو حکومت وقت کے کارندوں نے دبانا چاہا لیکن وہ اس میں ناکام رہے، اور طلبہ اپنی آواز کو ملک و قانون کے خاطر اور زوردار طریقے سے بلند کرنے لگے اسی اثنا میں جب طلبہ جامعہ ملیہ اپنی آواز کو قانون کے دائرے میں رہ کر ملک کی خاطر بلند کر رہے تھے حکومت وقت کے کارندوں نے جو پلس کی شکل میں وہاں موجود تھے طلبہ جامعہ پر ظلم و ستم کی ایسی داستان رقم کی کہ رہتی دنیا تک جو ہندوستان کو عالمی اقوم کے سامنے شرمندہ کرتی رہے گی۔

حکومت وقت کے کارندوں نے بشکل پلس یونیورسٹی میں پرامن طریقے سے احتجاج کرے رہے طلبہ پر حملہ کردیا اور پھر بے شرمی کی حد تو اس وقت پار کردی گئی کہ جب ظلم صرف یونیورسٹی کے باہر ہی طلبہ پر نہیں کیا گیا بلکے جو طلبہ لائبریری میں مطالعہ کر رہے تھے اور ملک کی سالمیت کے لیے لائحہ عمل تیار کر رہے تھے ان سب پر بھی ظم و ستم کی نہایت شرمناک تاریخ رقم کرڈالی، جیسے ہی ان تمام حالات کی خبر دہلی سے نکل کر علی گڑھ مسلم یونورسٹی میں پہنچی تو وہاں کے طلبہ بھی ملک کی بقا کی خاطر نکل پڑے ٹھیک دہلی پلس کی طرز پر وہاں کی پلس نے بھی طلبہ پر ظلم و ستم کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی بلکے طلبہ کےساتھ ایسا معاملہ کیا گیا جسے دیکھ کر یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ یونیورسٹیز کے پڑھنے والے طلبہ نہیں بلکے لشکر طیبہ، اور حزب المجاہدین کے آتنک وادی ہوں حکومت وقت کےاشاروں پر ناچنے والی پلس نے دونوں یونیورسٹیز کے طلبہ پر جو ظلم کیا ہے وہ بیان کرتے افسوس و شرمندگی ہوتی ہے۔

کیا کسی اور ملک میں طلبہ کے ساتھ ایسی ظلم و بربریت کی جاتی ہوگی، اور پھر یہ طلبہ تو آپ کے ملک کا مستقبل ہیں اپنے مستقبل کےساتھ آپ ایسا ظلم و ستم ایسی گھناونی حرکات کرسکتے ہو یہ ایک سچا ہندوستانی اور محب تعلیم کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔

ملک کے خاطر جنگ کررہے طلبہ پر ظلم و زیادتی کی خبر جب ہندوستان بھر میں گونجیں تو یکا یک پورے ملک کے طلبہ این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت میں اور طلبہ کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور حکومت کے ظلم کی سخت الفاظ میں مذمت کی، ظلم جب اور بڑھا تو پورا ہندوستان طلبہ کےساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوگیا اور کوئی شہر ایسا نہ بچا کہ جہاں پر حکومت کیے ہوئے ظلم و فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت نہ کی گئ ہو؛ شہر شید دھرنے پر درشن شروع ہوگئے جو تاحال جاری ہیں اور ملک کے امن پسند لوگ حکومت اس کے کیے ہوئے غلط فیصلوں سے اگاہ کر رہے ہیں اور ان فیصلوں کو واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر حکومت وقت طلبہ سے اتنی خائف کیوں ہے کہ ان کی آواز کو دبانے کے لیے ان پر ہر طرح کا ظلم و ستم روا رکھا ہوا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں کو برباد کرنے پر آمادہ ہے تو اس کا سیدھا سا جواب میرے پاس تو یہ ہے کہ حکومت ان طلبہ سے ڈرتی ہے، حکومت تعلیم یافتہ نوجوانوں سے گھبراتی ہے، کیوں کہ اقتدار پر براجمان لوگ یہ جانتے ہیں  کہ اگر ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ ملک کاپڑھا لکھا نوجوان بیدار ہوگیا تووہ ہمارے خوابوں کو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے گا قدرت خدا وندی دیکھیے کہ آج ہمارے ملک کے تحفظ کے خاطر جو سب سے بڑا طبقہ میدان عمل میں ہے وہ تمام کا تمام تعلیم یافتہ ہے؛ اور پھر ہندوستان کے کتنی ہی اہل علم ودانست نے اس قانون کو یکسر رد کردیا ہے اور حکومت سے اپنے فیصلے کو واپس لینے کی مانگ رکھی ہے۔

موجودہ حکومت کا ایک گندہ چہرہ یہ بھی رہا ہے کہ جب وہ اپنی پلاننگ میں ناکامیاب ہوتی ہے تو گورا ملک میں ہندو مسلمان دنگا بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے اور ہر معاملے کو ہندو مسلم کا رنگ دے کر اپنے چاہنے والوں الو بنادیتی ہے، ٹھیک اسی طرح اس نے اس وقت بھی اپنے خلاف اٹھ رہی آواز کو ہندو مسلم کا نام دینے کی کوشش کی جس میں حکومت کو منہ کی کھانی پڑی اور حکومت کے اس ایجینڈے کو فیل کرتے ہوے پورے ملک کے محبین وطن بلاتفریق مذہب و ملت حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے یک بزبان ہوکر حکومت کی مخالفت کی جس کی وجہ سے حکومت وقت نےانہیں ہر طرح سے پریشان کیا کسی بھی ملک کی حکومت اپنے ہی ملک کے باشندوں کو اس طرح سے پریشان کرتی ہے تو حکومت نہیں بلکہ تانا شاہی ہے اور جب کوئی شخص طاقت واقتدار کے نشے میں مست ہوتا ہے تو پھر وہ ظلم کرنے میں کوئی قصر نہیں کرتا ہے اور اسوقت ہمارے ملک میں  یہی ہورہا ہے۔

کہ یہاں نہ عوام محفوظ ہے اور نا ہی تعلیم یافتہ طبقہ اور نا ہی حکومت کو اس بات کی پرواہ ہے کہ ہم جن طلبہ پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں یہ در حقیقت ہمارے ملک کا مستقبل ہیں اور اپنے ملک کے مستقبل کو ہم اس طرح برباد نہیں کرسکتے

لیکن تعلیم یافتہ طبقات کی عزت تو وہ کرے گا جو خود تعلیم یافتہ ہوگا یہاں تو اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو دسویں فیل ہوکر چائے بیچ چکے ہیں یہاں تو حکومت پر وہ قابض ہیں جو گجرات کے بے گناہ اور نہتے عوام کے قاتل ہیں یہاں تو حکومت ان لوگوں کو الیکشن کا ٹکٹ دیتی ہے جو مالی گاوں بم دھماکے میں ملوث ہیں ہم نےتو یہ سنا تھا کہ حکومت پڑھے لکھے اور شریف لوگ چلاتے ہیں لیکن ہندوستان میں تو اس وقت معاملہ بالکل برعکس ہے۔

لہذا اس وقت میری ملک کے تمام امن پسند لوگوں سے گزارش ہے کہ ملک کی بقاوسالمیت کی خاطر اپنے آرام قربان کرکے سڑکوں پر نکل آئیں اور احتجاج کررہے طلبہ کی پر زور حمایت کریں

اللہ تعالی سے دعا ہے مولی ہمارے ملک اور اس کے باشندوں کو سلامت رکھے۔آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here