مقبول احمد سالک مصباحی

سالک مصباحی دہلوی

اللہ ورسول (جل وعلی و صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان مین گستاخی اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا اور ان کی دلآزاری کرنا نہ صرف سستی شہرت کے حصول کا ذریعہ بن گیاہے، بلکہ اس کے ذریعہ یہ چیک کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں اپنے مذہب کے حوالےسے کتنی بیداری ہے، ان میں اپنے اللہ اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کتنا لگاؤ اور تعلق رہ گیاہےاور اس طرح کی شر انگیزی پر مسلمان جتنا زیادہ چینختا اور چلاتاہے، اور جتناروتا اور شور مچاتاہے شرپسند اتناہی خوش ہوتے ہیں، ان کے خسیس اور ذلیل ذہنیت کو سکون ملتاہے،  وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے بنیادی مسائل سے ہٹ کر جذباتی مسائل میں الجھے رہیں، ان کو اپنے اہم قومی وملی مسائل پر کو سوچنے اور کچھ کرنے کا موقعہ ہی نہ مل سکے. الیکشن کے زمانے میں یہ سلسلہ گویا سوپر آئیڈیا اور گولڈن چانس بن جاتاہے، اس ماحول میں مسلمانوں کو بھڑکانے اور سڑک پر اتارنے،  دھرنا واحتجاج کا ماحول برپاکرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے. حالیہ دنوں میں جن فرقہ پرست جن سنگھی نام نہاد لیڈر  گری راج سنگھ کے بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے،جس میں مبینہ طور پر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ اور آپ کی مقدس شہزادی خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی شان میں دریدہ دہنی کی گئی ہے.ظاہر ہے گری راج کے اس گستاخانہ بیان کے لیے کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے.گری راج نے اپنے نام کی طرح اخلاقیات کے سب سے نچلے درجے تک گر کر کہا ہے کہ  ” پیغمبر محمد اور ان کی بیٹی پر فلم بنانے کی کسی میں ہمت نہیں ہے‘‘۔  ظاہر ہے عالم انسانیت کی ان دونوں مقدس ہستیوں پر فلم بنانے کا کوئی جواز یاآدھار ہی نہیں ہے تو پھر ان پر فلم کیسے بن سکتی ہے؟ فلم بننے کے لیے تصویر اور ویڈیو کاہونا لازمی ہے، جو یہاں سرے سے مفقود ہے،مسلمانوں کے یہاں پیغمبر وں کی تصویریں دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا بنانایامحفوظ رکھنا جائز ہے جو بت پرستی کا سب سے اہم آدھار ہے.فتح مکہ کے موقعے پر پیغمبر اسلام نے کعبۃ اللہ شریف کو ہر طرح کی تصویر اور مجسمے سے بالکلیہ پاک کردیا تھا،کعبہ میں موجود تصویر اور مجسموں میں کچھ کاتعلق حضرت ابراہیم واسماعیل اور حضرت مریم وعیسی علیھم السلام سے تھا، مگر ان سب کو بڑی جرات وہمت کے ساتھ پیغمبر اسلام نے مٹادیا تھا اور کہا تھا کہ اسلام میں تصویر سازی اور مجسمہ گری کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ بت پرستی کا پہلا زینہ ہے، اور بت پرستی کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے. شاید یہ نکتہ وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے یا سمجھنا نہیں چاہتے جن کی آستھا کی بنیاد ہی مجسمہ سازی اور بت پرستی پر ہے جس کا مظاہرہ وہ اپنی تمام مذہبی تقریبات وتفریحات کے مواقع پر کرتے رہتے ہیں.

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے کبھی کسی کے مذہبی عقیدت کو کبھی نشانہ بنایا ہی نہیں تو پھر ان مذہبی جذبات کو کوئی نشانہ کیسے بنا سکتاہے؟ قرآن پاک نے صاف صاف کہاہے کہ اے مسلمانوں. تم دوسروں کے خداؤں کو برا بھلا مت کہو ورنہ وہ تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہیں گے.تارخ انسانی گواہ ہے کہ اسلام نے کبھی کسی کی مذہبی عقیدت کو ٹھیس نہیں پہنچایا، اور نہ اسلام اس کی وکالت کرتا ہے،بلکہ اسلام کی کشادہ ظرفی اور سیر چشمی کا یہ عالم ہے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ یہود ونصاری اور دیگراقوام عالم کے آسمانی مذاہب کے پیغمبروں پر بھی ایمان لانے کا حکم دیتاہے،اور یہ طے ہے کہ مسلمان جب کسی پیغمبر پر ایمان لاتا ہے تو پھر اس کی شان میں گستاخی وبے ادبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. رہ گئے وہ مذاہب جو آسمانی نہیں ہیں ان کے لیڈران اور رہنماؤں کو بھی اسلام بلاسبب برابھلاکہنے پرروک لگاتاہے،البتہ جہاں تک تحقیق وتنقیدیا احقاق حق اور بحث ومباحثہ کی بات ہے تو اس کی ضرور گنجائش ہے، جیسا کہ آیت مباہلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے. جران کے عیسائیوں کے چیلنج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کے سامنے حق کو واضح کرنے کے لیے مناظرے کی آخری سطح مباہلہ کے لیے بھی تیار ہوگئے اور حکم خداوندی کے مطابق اپنی بیٹی فاطمہ زہرا اپنے فرزندان حسن وحسین اور عزیزداماد حضرت علی علیہم السلام کو لے کر نکلے مگر آپ کے مقابلے میں ان کو آنے کی ہمت نہیں ہوئی. اور انشاء اللہ کسی باطل پرست کو تاقیامت نہیں ہوگی. گری راج جیسے عقل وخرد سے محروم اور دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرکے اپنے سفلی اور تھرڈ کلاس کے جذبات کو تسکین پہنچانے والوں کو کھلا چیلنج ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں اسلام اور اکابرین اسلام کی سیرت وسوانح کی پاکیزگی اور ان کے اخلاق وکدرار کی بلندی کے حوالے سے گفتگو کرلیں. اس کے لیے فلم بنانے کی ضرورت نہیں ہے،  اسے ثابت کرنے کے لیے چودہ سوسال کے بعد بھی ممحمد کی بیٹی فاطمہ زہرا علیہا السلام کی کنیزوں کااعلی کردار ہی کافی ہے جو آج بھی کسی غیر محرم کے سامنے اپنا چہرہ نہیں کھولتیں اور اپنے حسن وجمال کو بے حجاب نہیں کرتی،  تمام اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام کی بیٹیوں اور بیبیوں کی یہی عزت وعظمت اور طہارت وپاکدامنی کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے غیر انسانی اور ظالمانہ ہتھ کنڈے اپنانے سے گریز نہیں کرتیں.

فرقہ پر ستی کی کی سیاست میں روٹی سینکنے والے گری راج کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ چودہ سو سا ل کے بعد بھی مسلمان عورت اپنا چہرہ غیرمرد کے سامنے خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور وہ محرم کے ماسواہو، کھولنا پسند نہیں کرتی اور نہ یہ شرعا جائز ہے توپھر وہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ کوئ بد معاش دریدہ دہن اور گستاخ فطرت اس کے پیغمبر کی بیٹی پر فلم بنائے.

ہاں یہ ضرور ہے کہ جن کے یہاں ہرکسی کے سامنے چہرہ کھولنا اور اپنے جسمانی حسن وجمال کی نمائش کرنا عبادت کادرجہ رکھتاہے وہ اپنی تاریخ کی کسی بھی خاتون پر فلم بنا سکتے ہیں اور بناتے بھی رہتے ہیں،اس عمل کے لیے وہ مکمل طور پر آزاد ہیں مگر مسلمانوں سے ہرگز یہ توقع نہ کی جائے کہ وہ یہ غیر اخلاقی اور غیر شرعی کام اپنی تاریخ کی مقدس ترین خواتیں اور شہزادیوں کے حوالے سے برداشت کریں گے.

ملک کی مشہور ومعروف دینی وملی اور سیاسی و سماجی تنظیم آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ کے بانی صدر حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے اس کے خلاف سخت بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گری راج کے خلاف حکومت ہند فوری طور پر کڑی کاروائی کرے، اور اس معاملے کو ملک سے غداری کے تناظر میں دیکھا جائے. گری راج کے اس بد بختانہ بیان سے پورے ملک کا امن و امان خطرے میں پڑگیاہے اور کبھی بھی حالات بگڑ سکتے ہیں. پورے ملک میں سید محد اشرف کے اس بیان کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا ہے، اور ہر ملت ومذہب کے لوگوں نے ان کے اس بیان کی پذیرائی کی ہے.

مولانا مقبول احمد سالک مصباحی  نئی دہلی میں  جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے بانی و مہتمم ہیں ، مذہبی اور سماجی  معاملات پر گہری  نظر رکھنے والے   بہترین قلم کار ہیں  سوشل میڈیا پر ان کی تحریرں کافی پڑھی جاتی ہی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here