دلتوں پر مسلمانوں کے احسانات تاریخ کی روشنی میں

مسلمانوں کی بدولت ڈاکٹر امبیڈکر آئین مرتب کر پائے اور دلتوں کو ریزرویشن ملا۔

ڈاکٹر فیضان عزیزی 

ہندوستان کے ہر طبقہ اور سماج کے کچھ لوگوں کو RSS نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے تیار کیا ہے جن کے ذریعہ وہ من گھڑت، ادھوری اور جھوٹ پر مبنی فتنہ کو اچھال کر سارے سماج کو ملزم ٹھرا نے اور عام لوگوں کو گمراہ کر نفرت ڈال کر پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ خاص کر مسلمانوں کے خلاف۔ دلت سماج سے بھی ایسے لوگوں کو کام پر لگا دیا ہے جو دلتوں کو بہکا کر من گھڑت یہ یکہ دوکہ واقعہ کو طول دے کر انہیں مسلمانوں کا دشمن بنانے کے لئے انکی ذہن سازی کر رہے ہیں اور کافی کامیاب بھی ہوئے۔ انکے کئے الزام ہیں چند کو یہاں پیش کر رہا ہوں جیسے۔ مسلم حکمرانوں نے دلتوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہے، مسلم حکمرانوں کی فوجوں نے دلت عورتوں کی عزت لوٹی، ڈاکٹر امبیڈکر کے ساتھ مسلمانوں نے بھید بھاو کیا وغیرہ۔ اب آئے ان الزامات کی تاریخی جائزہ لے۔

یہ الزام کے مسلم حکمرانوں نے ان پر ہونے والے کچھ نہیں کیا تو یہ غلط ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کے کیرالا میں *دلت عورتوں کو اپنا سینا ڈھکنے کی اجازت ہندو اعلی برادری کے لوگوں سے نہ تھی* دلت عورتیں اپنا سینا کھول کر چلتی تھی اگر سینا ڈھکنا ہوتا تو انہیں ڈیکس دینا پڑتا جو اکثریت کی پہنچ کے باہر تھا ۔ جب یہ خبر *ٹیپوں سلطان کو معلوم ہو ہوئے تو انھوں نے فورا اس روج پر روک لگانے کا حکم دیا۔* جس کی وجہ سے ہندو اعلی برادری والوں ٹیپوں سلطان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جو آج تک جاری ہے۔ دوسری بات یہ کے مسلم حکمرانوں نے کسی کے مذہب معاملات میں دخل اندازی نہیں کی جیسے آج کل BJP کی مودی سرکار کر رہی ہے زبردستی مسلمانوں کی ساتھ۔ آریاؤں نے جو ۳ قبل مسیح توہم پرستی اور منو سمرتی کے جو بھید بھاو کے اصول بنائے تھے جب سے لیکر آج تک دلت سماج ان کو آج بھی گلے لگا رکھا ہے ۔ اس دور میں نہ تو مسلمان تھے اور نا ہی کریسچن۔ یہ دونوں مذہب کے آنے کے بعد سمجھ رکھنے والے لوگوں نے ظلم کے خلاف اٹھ کر ان دونوں مذہب میں داخل ہوئے جبکہ *آج بھی دلتوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو آریاؤں کے بنانے ہوئے دیوتا اوردین پر عمل کر رہے ہیں۔ جن کی مخالفت کر ڈاکٹر امبیڈکر نے انھیں چھوڑا اور فریب کہا تھا* ۔1800 صدی عیسوی میں *جیوتی با پھولے اور انکی بیوی ساویتری بائی پھولےجو پسماندہ برادری سے تھے انہوں نے دلت لڑکیوں کی تعلیم کی تحریک شروع کی جسکے بعد ہندو اعلی برادری کے لوگوں نے ان دونوں کی نہ صرف مخالف کی* بلکے ان دونوں کو انکے خاندانی گھر سے نکال دیا جن کو پونہ کی *مسلم خاتون فاطمہ شیخ نے اپنے بھائی عثمان شیخ کے ذریعے بلایا اور پناہ اپنے گھر میں نا صرف پناہ دی بلک وہی 1848 میں لڑکیوں کا پہلا اسکول انڈ یجیینس لائبریری کے نام سے کھولا* ۔ ساویتری بائی کے ساتھ مشکل ترین دور میں فاطمہ شیخ کھڑی رہی یہاں تک کے انہیں بھی بہت نشانہ بنایا گیا۔ یہ دونوں جب کہی نکلتی تو ساتھ اپنے کپڑے کا ایک جوڑا ساتھ رکھتی کیوں کے کہی انہیں ناصرف پر پتھروں سے مارا جاتا بلکہ گوبر تک ان پر پھینکنے جاتے مگر فاطمہ شیخ نے ہر موڈ پر ساتھ رہی۔ *حالت بدلے آج ساویتری بائی پھولے اور انکے شوہر کے نام سے کئی سرکاری اسکیمیں اور نا جانے کیا کیا چیزیں بنائی گئی مگر فاطمہ شیخ کی قربانی کو بھولا دیا۔* 1920ء میں *ڈاکٹر امبیڈکر نے دلتوں کے لیے پانی کے حق کی خاطر ستیھا گراہ چھڑا مہاراشٹر کے رائے گڑھ مہاڈ علاقے میں* ۔ جہاں اس کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی کیونکہ زیادہ تر جگہ برہمن سماج سے تعلق رکھنے والوں کی تھی ایس وقت مہاڈ کے *مسلم شخص فتح خان نے اپنی زمین اس کام کے لئے دی۔ یہ خبر سنتے ہی ہندو اعلی برادری فتح خان کے پاس گئے اور اپنا فیصلہ واپس لینے کو کہا مگر فتح خان نے کہا کے میں اپنے الفاظ واپس نہیں لے سکتا۔* اس واقعہ کی تفصیل امبیڈکر خیالات کے دانشور آنند تلٹمبڈے نے اپنی کتاب MAHAD: The Making of the First Dalit Revolution میں کیا ہے۔ 7سبتمبر 1931ء دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کر لئے جب *ڈاکٹر امبیڈکر پہنچے تو انکا گرم جوشی سے استقبال خلافت مومنٹ کے سربراہ مولانا شوکت علی نے کیا تھا۔* اس کانفرنس کے شروع ہونے سے قبل *ہندو اعلی برادری کے لیڈروں نے مسلم وفد سے گزارش کی کہ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی دلت سماج کو ریزرویشن دینے کی مانگ کی حمایت نہ کر جسے مسلم لیڈروں نے نہ صرف خارج کر دیا بلکہ کانفرنس میں جم کر حمایت کی جس سے ڈاکٹر امبیڈکر کی مانگ پر مہر لگ گئی۔* اس کا واقعہ کو ڈاکٹر امبیڈکر نے اس کانفرنس سے آنے کے بعد *ممبئی میں ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنے استقبالیہ تقریب میں کہا کے مسلم لیڈروں کی حمایت سے ان کی مانگ پوری ہوئی انکے اس کارنامہ نے ان کا احترام مجھے ہمیشہ کرنا ہوگا۔اس تقریب میں مولانا شوکت علی بھی موجود تھے اور انھوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کو بھرے مجمہ میں اپنا چھوڑا بھائی سے مخاطب کیا۔* واقعہ کو دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لعل اپنے امبیڈکر نامہ Episod نمبر 485 میں بتایا ہے ۔ جہاں امبیڈکر کو ہندو اعلی برادری کے لیڈر تنگ نظری کی بنا پر نظر انداز کرتے تھے وہی 1949ء میں مسلمانوں کے عظیم لیڈر *مولانا حسرت موہانی نے روزاہ افطار کے وقت اپنے ساتھ امبیڈکر کو بیٹھا کر افطار کیا۔* 1952 ء میں ہمارے ملک کے پہلے *جنرل الیکشن میں ڈاکٹر امبیڈکر* ممبئی کی Mumbai North central constituency سے *الیکشن لڑے اور کانگریس کے دلت امیدوار سے 15000 کے ووٹوں سے ہار گئےڈاکٹر امبیڈکر کو انہی کے سماج کے فرد نے شیکشت دی تھی اسکے بعد مہاراشٹر کے بھنڈار سے 1954 ء میں لوک سبھا کا ضمنی انتخاب میں لڑے مگر یہاں بھی ہار گئے* اور تیسرے نمبر پر رہے ۔ *آئینی اسمبلی(Constitution Assembly) ملک کے دستور کو بنانے کے لئے بنائی گئی* ۔ بنگال کے مسلم اکثریتی علاقے سے *ڈاکٹر امبیڈکر اس اسمبلی میں جانے کے لئے کھڑے ہوئے مسلمانوں نے انہیں جتا کر اس اسمبلی میں بھیجا* جہاں پہنچ کر وہ اس اسمبلی کے چیئرمین بنے اور اسمبلی کے ممبران کی رائے کو یکجہ کر دستور ہند کو 26 نومبر 1949ء مکمل کیا جسکے بعد 26 جنوری 1952ء کو اسے نافذ کیا۔ *حیدرآباد کے نواب میر عثمان علی خان نے ڈاکٹر امبیڈکر کو 54 ایکٹ زمین مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں دی تعلیم ادارہ بنانے کے لیے دیا تھا* 1950ء میں ملک کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے Milind Maha Vidhyalaya نامی ادارے کی سنگ بنیاد رکھی اس وقت ڈاکٹر امبیڈکر کے ساتھ نواب عثمان علی خان بھی موجود تھے۔ 

مندرجہ بالا چند تاریخی واقعات کو میں نے یہاں پیش کیا ایسے بہت سے واقعات تاریخ میں موجود ہیں جس سے *دلت سماج کی عام عوام ناواقف ہیں جس سے وہ RSS کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ دلت سماج کے اسکلر حضرات حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں مگر ان کی اکثریت تنگ نظر ہے جو اپنے سماج کو ان سے واقف نہیں کراتی تو وہی اصل مجرم مسلمان ہیں جن کی بے حسی، غیر سنجیدہ پن اور اصل مسائل سے چشم پوشی نے اس قوم کو اس کا دشمن بنادیا جن کے محسن تھے ہمارے اسلاف۔

ڈاکٹر فیضان عزیزی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here