مودی کی مشکلوں میں اضافہ

*مشرف شمسی 

کرناٹک میں بی جے پی کی شکست سے ملک کی جمہوریت اور آئین پر یقین رکھنے والوں نے راحت کی سانس لی ہے۔لیکن کرناٹک میں کانگریس کی جیت کے بعد سے وزیر اعظم مودی اور امیت شاہ کی حیثیت پارٹی اور ملک میں کمزور ہوتی جائے گی ۔اس سال کے آخر میں راجستھان،چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور ان تین ریاستوں میں کم سے کم دو ریاستوں میں بی جے پی کی شکست ہو جاتی ہے تو یقین مانیے 2024 کے لوک سبھا چناؤ سے پہلے ہی مودی جی سے بڑا چہرہ بی جے پی میں یوگی ادتیاناتھ ہو جائیں گے ۔ویسے کرناٹک میں شکست کے بعد ہی بی جے پی میں مودی اور شاہ کے کام کرنے کے طریقے پر سوال اٹھنے شروع ہو جائیں گے ۔دراصل بی بی سی کی ڈاکومنٹری اور ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بعد سے مودی کے لئے مشکلوں کی شروعات ہو چکی ہے ۔کرناٹک چناؤ کا نتیجہ محض ایک ٹریلر ہے۔دراصل جس طرح کا گھیرا مودی سرکار کے خلاف بن رہا ہے اس گھیرے کو 2014 کے پہلے من موہن سنگھ کی سرکار سے موازنہ کر سکتے ہیں ۔2014سے پہلے یعنی 2011-12 میں ہی کوئلہ گھپلہ اور کامن ویلتھ گیمز گھپلہ سامنے آیا تھا۔من موہن سنگھ سرکار ان گھپلوں سے جوجھ ہی رہی تھی تبھی بد عنوانی کے خلاف انّا آندولن شروع ہو گیا تھا ۔من موہن سنگھ کے دوسرے دور کی ایک کے بعد ایک واقعات کو یاد کریں اور پھر مودی سرکار کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ سال کے واقعات کو سلسلے وار دیکھنے کی کوشش کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سرکار کے خلاف بھی ایک ماحول تیار ہو رہا ہے ۔میں یہ نہیں بتا سکتا کہ مودی سرکار کے خلاف جو ماحول تیار کیا جا رہا ہے اس کے پیچھے کون سی طاقت کام کر رہی ہے۔لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ملک کے دو چار کارپوریٹ کو چھوڑ دیں تو زیادہ تر کارپوریٹ نہیں چاہتے ہیں کہ مودی 2024 کے بعد بھی وزیر اعظم رہیں ۔مودی کو وزیر اعظم کی کرسی سے اتارنے کے لئے غیر ممالک میں بھی کام ہو رہا ہے ایسا میں اسلئے کہہ رہا ہوں کہ بی بی سی کی ڈاکومنٹری اور ہنڈین برگ کی رپورٹ یوں ہی سطح پر نہیں آ جاتا ہے ۔ساتھ ہی مودی سرکار کے خلاف امریکہ میں اقلیتوں کے خلاف ظلم کی رپورٹ بھی سامنے آ چکی ہے ۔آئندہ ماہ جب وزیر اعظم امریکہ جائیں گے تو اُنہیں اس رپورٹ پر بھی جواب دینا ہوگا ۔ویسے بھی چنندہ کارپوریٹ کی مدد سے بنی سرکار کی ایک مدت ہوتی ہے اور وہ مدت زیادہ سے زیادہ دس سال کی ہوتی ہے۔مودی سرکار دس سال پورے کرنے جا رہی ہے اور کرناٹک میں مودی جی کا بہلانے اور پھسلانے والے وعدے کو عوام نے انکار کر دیا ہے۔اسکی جگہ عوامی ضروریات کے موضوع کو توجہ دیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ آئندہ چناؤ میں بھی فرقہ وارانہ تقریر اور بے بنیاد باتوں پر عوام مودی جي کا ساتھ نہیں دیگی ۔

بات ختم کرنے سے پہلے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔مودی جی بحیثیت وزیر اعظم آئندہ ماہ امریکہ جا رہے ہیں اور راہل گاندھی اس ماہ کے آخر میں امریکہ جا رہے ہیں ۔دونوں رہنماؤں کا موازنہ امریکہ کی زمین پر کریں گے تو پتہ چلے گا کہ راہل گاندھی کا جلوہ امریکہ میں زیادہ بڑا دیکھے گا۔جبکہ اس امریکی دورے میں هودی مودی کرانے والا کوئی نظر نہیں آئے گا۔بھلے ہی بھارت کی میڈیا مودی جی کو چوبیس گھنٹے دکھائے۔جہاں تک بھارت کی میڈیا کا سوال ہے تین ریاستوں میں بی جے پی کی ناکامی کے بعد وہ بھی راہ راست پر آ جائیں گے ۔ملک بدل رہا ہے مرکزی حکومت کو یہ احساس ہو چکا ہے اور اس وقت وزیر اعظم اور راہل گاندھی کا امریکہ جانا بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ضرورت ہے اُسے سننے اور سمجھنے کی۔شاید ملک میں عام انتخابات سے پہلے وزیر اعظم آخری کوشش کرنے امریکہ جا رہے ہیں۔لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ وہ کامیاب ہو پائیں گے ۔

میرا روڈ ،ممبئی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here