آہ مقبول سالک مصباحی صاحب…….. اب تو حشر میں ہی ملاقات ہوگی.
علامہ مقبول سالک مصباحی اس دار فانی سے کوچ کر گئے….اس روح فرسا خبر سے دل بہت مغموم اور کبیدہ خاطر ہے… علامہ بڑے خوش دل اور سادہ لوح عالم تھے اشرفیہ وغیرہ اہل سنت کے کئی بڑے اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں اور فی الحال مدرسہ جامعہ قطب الدین بختیار کاکی دہلی کا نظام سنبھال رہے تھے
عاشق پنجتن فدائے اہل بیت امیر القلم ماہر لسانیات علامہ مقبول سالک مصباحی صاحب گوناگوں صلاحیتوں کے حامل تھے اللہ رب العزت نے علامہ کو بیک وقت ربان و قلم دونوں فیلڈ کی مہارت سے نوازا تھا علامہ کو عربی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا. ایک زمانہ تھا جب پورے ملک میں علامہ کو خطاب کرنے کے لئے بلایا جاتا تھا مگر بریلویوں سے کچھ فروعی اختلافات کی بنا پر شدت پسند بریلوی حلقے نے علامہ کے خطاب کو باضابطہ طور پر بند کرانے کی مہم چلائی گئیی اور لگ بھگ اکثر جگہ پر خطاب کو کینسل کرایا جانے لگا جس سے علامہ کو بھاری معاشی نقصان پہنچایا گیا.
علامہ نے کئی کتابوں کی ترتیب دی جس میں اول ذکر شہرہ آفاق کتاب “جہان اعلی حضرت اشرفی ” ہے
جس میں آپ کی بے لوث محنت کی چاشنی ہی تھی جو اتنے کم وقت میں سات سو چھیاسی صفحات پر مشتمل مجموعہ مقالات شائع کیا جا سکا.
علامہ کو اہل سنت سے ہمیشہ اپنے آپ کو نذیر انداز کئے جانے کی شکایت رہی وہ بارہا مجلسی گفتگو میں اس کا ذکر کیا کرتے تھے.
علما میں حسد کی بیماری عام ہے مگر علامہ ہر ابھرتے ہوئے عالم کی قدر کرتے تھے یہاں تک کہ اپنے حصہ کے لفافے بھی دوسروں کو دلا کر خالی ہاتھ صبر کا دامن تھام کر اپنے حسینی ہونے کا ثبوت بھی دیا کرتے تھے.
علامہ اس قدر خنداں پیشاں تھے کہ دوسرے کی دل جوئی کے لیے اپنے سے کم عمر اور کم علم اشخاص کی بھی جی حضوری کر لیا کرتے تھے.
علامہ ہمیشہ اشرف ملت کے وفادار رہے اور تا حیات علما مشائخ بورڈ کے قومی ترجمان کی خدمات انجام دیتے رہے
ماہ نامہ غوث العالم کی اشاعت کے دوران علامہ شانہ بشانہ کھڑے رہے اور ہم نے بہت ہی مختصر عرصے میں کئی کامیاب نمبر شائع کئے جو شاید علامہ کے بغیر ناممکن امر تھا.
لوگ کہتے ہیں کہ علامہ مستقل مزاج نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کو اکٹھا نہ کر سکے لیکن فقیر نے ماہ نامہ غوث العالم کی اشاعت کے دوران یہ جانا کہ علامہ سے کوئی کام لینے والا ہو پھر کوئی کام نہیں رکے گا.
علامہ نے ایک مرتبہ فقیر کو اپنے دبئی جانے کا ایک واقعہ سنایا
علامہ کہتے ہیں کہ جہان مفتی اعظم کی اشاعت کے بعد عربی اور اردو زبان میں مہارت کی شہرت سن کر مجھے دبئی کے ایک سنی شیخ نے بلا لیا تھا وہاں ایک عالی شان محل نما مکان میں رہائش کا انتظام کیا گاڑی نوکر چاکر سب تھے اور یہ اجازت دے دی کہ یہ سب آپ کا ہے آپ یہاں سے جب تک چاہے اہل سنت کی کتب پر کام کیجئے (یہ اس زمانے کی بات ہے جب فوٹو اسٹیٹ کرنے کے بعد اس کو کیمیکل میں دھونا پڑتا تھا) علامہ نے سب کچھ دیکھ کر شیخ سے اجازت لی کہ میں ہندوستان میں اپنے اہل خانہ سے ملاقات کر کے واپس آتا ہوں جب تک آپ یہ جو کچھ انتظامات رہ گئے ہیں ان کو مکمل کر لیں اگلی صبح فلائٹ سے واپس ہندوستان آ گئے علامہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد دوبارہ دبئی جانا ہی نہ ہو سکا پہلے بیمار ہو گئے پھر پاسپورٹ ایکسپائر ہو گیا حتی کہ شیخ صاحب نے بد ظن ہو کر فون کرنا ہی بند کر دیا. علامہ کہتے تھے کہ میرے پیچھے شاید کوئی شریر جن لگا ہوا ہے جو ہمیشہ بنتے ہوئے کاموں کو بگاڑ دیتا ہے.
علامہ فقیر کے ساتھ ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آئے اور ہمیشہ ترقی کی بات سن کر خوشی کا اظہار کرتے تجھے. اور مستقبل کے حوالے سے اپنی تمام تر پلاننگ کے حوالے سے آگاہ فرماتے رہتے تھے. علامہ صاحب ایک مخلص دوست، شفیق بھائی کی طرح تھے. فقیر پسر اکبر حمزہ اشرف کی شدید بیماری کی وجہ سے عیادت کو نہ پہنچ سکا اس کا تا حیات ملال رہے گا. عرس مخدومی میں ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر کسی وجہ سے ملاقات نہ ہو سکی……….. اب تو حشر میں ہی ملاقات ہوگی………
علامہ کا یوں اچانک جانا اہل سنت بلکہ سلسلہ اشرفیہ کا بہت بڑا خسارہ ہے… اللہ پنجتن پاک کے صدقے مرحوم کی بے حساب مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
شریک غم
ڈاکٹر میم الف نعیمی
٢٧ ستمبر ٢٠٢٣

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here