حسان بن عبد الغفار 

آج کے اس مغربیت زدہ دور میں کچھ عقل سے پیدل،اللہ کے منکر منچلے حضرات اپنے ذہن کی ذہانت دکھلاتے ہوئے یا شیطانی وساوس کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک انتہائی غلط، بکواس اور سطحی سوال کر بیٹھتے ہیں کہ ” جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟

قارئین کرام! شیطان -جو کہ انسان کا ازلی دشمن ہے-کسی بھی طرح انسان کو سکون و اطمینان سے رہنے نہیں دیتا بلکہ اس کے حال اور ایمان ویقین کے اعتبار سے اس کے دل میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انسان کو اس کے خالق کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر کے اس کا سکون و اطمینان غارت کردے اور اسے راہ راست سے دور کردے ،جب اس پر بس نہیں چلتا تو سب سے اہم عبادت نماز کے اندر اس کے دل میں خیالات ڈالتا رہتا ہے۔کبھی وضو کے بارے میں تو کبھی طہارت کے بارے میں انسان کو شکی بنا دیتا ہے۔کبھی میاں بیوی کے درمیان تو کبھی دو مسلمانوں کے درمیان شکوک و شبہات کے زریعے اختلافات ڈالتا رہتا ہے۔

مذکورہ شیطانی وساوس میں سے سب سے اہم اور خطرناک وسوسہ جسے شیطان انسانی دلوں میں القا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے تو پھر- نعوذ باللہ – اللہ کا خالق کون ہے؟ 

‏ چونکہ بعض کمزور دل انسانوں پر ان وسوسوں کا اس قدر تسلُّط ہوتا ہے کہ وہ تنگی وبے چینی، حسرت وندامت اورخوف ‏ودہشت کی وجہ سے کچھ نازیبا اقدامات کر گزرتے ہیں لھذا مناسب معلوم ہوا کہ اس مرض کا تریاق پیش کر دیا جائے ۔۔

چونکہ مذکورہ سطور سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ اس سوال کا مصدر اور مرجع شیطان ہوتا ہے وہی مختلف حیلہ کر کے یہ سوال ذہن میں ڈالتا ہے۔

لھذا اگر یہ وسوسہ اور سوال کسی مسلمان کے دل میں پیدا ہو تو وہ درج ذیل حدیث کو سامنے رکھے۔ در

(1)  عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ’’لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق اللهُ الخلقَ ، فمن خلق الله ؟ فمن وجد من ذلك شيئا فليقل آمنت بالله‘‘. (مسلم:134)

“ابو هريرة رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہمیشہ ہی لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے حتی کہ یہ کہا جائے گا یہ اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے تو اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جو شخص ایسا ( اپنے ذہن میں ) پائے وہ یہ کہے میں اللہ تعالی پر ایمان لایا”.

(2) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” يأتي الشيطانُ أحدَكم فيقول من خلق كذا وكذا ؟ حتى يقول له من خلق ربَّك ؟ فإذا بلغ ذلك فليستعذ بالله ولينته ” .(مسلم :134)

‘اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : تم میں سے کسی ایک کے پاس سیطان آکر کہتا ہے کہ یہ یہ چیز کس نے پیدا کی ہے حتی کہ وہ اسے کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جب معاملہ یہاں تک جا پہنچے تو وہ اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے اور اس سے رک جائے”.

مذکورہ دونوں حدیثوں کا ماحصل

1-مسلمان اس شیطانی وسوسہ کو دل میں دبا کر نہ رکھے اور نہ ہی اسے چھپائے ورنہ کچھ دنوں بعد وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے ۔

2- یہ کلمات پڑھے: آمنت بالله “میں اللہ تعالی پر ایمان لایا “۔

3- شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کریں ۔

بعض حدیث میں بائیں طرف تین دفعہ تھوکنے اور سورۃ الاخلاص (قل هو اللہ احد) پڑھنے کا بھی ذکر آیا (صحيح الترغيب: رقم: 1613)

لیکن اگر کوئی کافر، مشرک، منکر یا عقل پرست کہے کہ جب ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے تو پھر اللہ یعنی: خالق کو کس نے پیدا کیا؟ تو ایسے لوگوں کے لئے مذکورہ نسخہ بالکل بے سود اور بے معنی ہوگا کیونکہ یہ لوگ کتاب و سنت کو مانتے ہی کہاں ہیں! 

لھذا ہم ان سے یہ کہیں گے کہ یہ سوال کرنا اصولی اعتبار سے باطل ہے بلکہ فی نفسہ سوال ہی میں بھی تناقض ہے ۔

کیونکہ اگر بفرض محال اور جدلی طریقے پر یہ کہہ بھی دیا جائے کہ اللہ تعالی کا کوئی خالق ہے تو فورا دوسرا سوال پیدا ہوگا کہ اس پیدا کرنے والے کے خالق کو کس نے پیدا کیا ؟؟ پھر پیدا کرنے والے کے خالق کے خالق کو کس نے پیدا کیا ؟؟  اس طرح ایک ایسا سلسلہ اور تسلسل نکل پڑے گا جس کی کوئی انتہاء نہیں ہوگی،  جو کہ عقلا محال بھی ہے چنانچہ شیخ الإِسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے اپنی کتاب (موافقة صحيح المنقول لصريح المعقول) میں کہا : لفظ (تسلسل ) سے مراد اس کے مؤثرات میں تسلسل ہے ، اور وہ یہ کہ حادث کے لئے فاعل ہو اور فاعل کے لئے فاعل ہو، تو یہ عقلی اعتبار اور عقلاء کے اتفاق سے باطل ہے ، اور یہ وہ تسلسل ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، اور اس سے دور رہنے کا بھی حکم دیا ہے۔ نیز ہم اس  بے عقل سے سوال کریں گے کہ کیا تم اللہ کو “خالق” مانتے ہو؟ 

وہ یقینا جواب دے گا کہ اللہ ہی خالق ہے “وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ”. (زخرف: 9) 

لیکن اگر کوئی ملحد اور دہریہ ہے اور اللہ کو خالق ہی نہیں تسلیم کرتا ہے تم  سب سے پہلے ہم ایک قاطع اور واضح دلیل کے ذریعہ سے اس کے ملحدانہ فکر کا قلع قمع کریں گے ۔ وہ قاطع دلیل احکم الحاکمین کا یہ فرمان ہے: أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ(سورۃ طور :35) “کیا یہ بغیر کسی [پیدا کرنے والے] کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟”. اس آیت کے دو حصے ہیں ۔

(1)ام خلقوا من غير شيء أي: من غير خالق. کہ کیا یہ لوگ بغیر خالق کے پیدا ہو گئے ہیں؟ ہر گز نہیں! اس لئے کہ تمام عقلاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہر مُحْدَث کا کوئی نہ کوئی محدِث ضرور ہوتا ہے۔

لھذا جب ہر مُحدَث ( ہر وجود میں آنے والی چیز) کے لئے ایک مُحدَث (وجود میں لانے والا) کا ہونا ضروری ہے تو ہم اس ملحد سے کہیں گے کہ تم اپنے نفس میں غور کرو اور بتلاو کہ کیا تم حادث نہیں ہو؟ یقینا ہو!

پھر فرض کر لو کہ تمھاری عمر بیس سال ہے تو 22 سال پہلے تم کیا تھے؟  وہ جواب دے گا کہ کچھ بھی نہیں!  پھر سوال کیا جائے کہ جب کچھ بھی نہیں تھے تو پھر کیسے وجود میں آگئے؟ 

لھذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ کوئی مُحدِث اور خالق ضرور ہے اور وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات واحد ہے۔ چنانچہ اللہ فرماتا ہے :هَلْ أَتَى عَلَى الإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا۔

إِنَّا خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا”۔( سورہ الدھر: 1-2)

(2) آیت کا دوسرا حصہ ہے: 

 أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ۔ أي: لأنفسهم۔ یا وہ خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں؟ ہرگز ہرگز ہرگز نہیں! کیونکہ وہ وجود میں آنے سے پہلے معدوم تھے ۔ لھذا کیسے ممکن ہے معدوم اپنے آپ کو پیدا کر ل؟  یہ عقل اور مشاھدہ دونوں کے یکسر خلاف بھی ہے۔

چنانچہ جب یہ واضح ہوگیا کہ نہ تو وہ بغیر خالق کے پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی انھوں نے خود کو پیدا کیا ہے تو متعین ہوگیا کہ ان کو پیدا کرنے والا اور انھیں وجود میں لانے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہے. پھر جب یہ کافر، مشرک، ملحد، مجنوں اور بے عقل یہ تسلیم کر لیتے ہیں تو ہم ان سے دوبارہ سوال کریں گے کہ کیا خالق مخلوق ہو سکتا ہے؟ ہر گز ہرگز ہرگز ہرگز نہیں ! کیونکہ اس سے اجتماع نقیضین  لازم آئے گا۔

اس لئے کہ اصول تباین یہ کہتا ہے کہ اجتماع نقیضین محال ہے ۔ایک چیز ایک ہی وقت میں اس چیز کی نقیض نہیں ہو سکتی یعنی: ایک وقت میں دو متناقض صفات کی حامل نہیں ہو سکتی ۔ مثلا کوئی جاندار ایک وقت میں انسان اور غیر انسان نہیں ہو سکتا ۔ پانی ایک وقت میں مائع اور غیر مائع نہیں ہو سکتا ۔ زید عالم ہے اور غیر عالم بھی ہے ایسا قطعا درست نہیں ۔ اگر پہلا صحیح ہے تو دوسرا غلط۔ اور دوسرا درست ہے تو پہلا غلط ۔ بالکل اسی طرح اگر اللہ خالق ہے تو مخلوق نہیں ہو سکتا اور مخلوق ہے تو خالق نہیں ۔ چونکہ جب آپ قطعی طور پر اللہ کو خالق تسلیم کر چکے ہیں تو لا محالہ ماننا پڑے گا کہ وہ مخلوق نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ اجتماع نقیضین محال ہے ۔

ہم مزید کہہ سکتے ہیں کہ خالق کے سلسلے میں اصل وجود ہے کیونکہ اگر عدم اصل ہوتا تو وہ کائنات کو پیدا نہیں کر سکتا تھا (جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان کر دیا گیا ہے کہ معدوم کا خود کو پیدا کرنا ہی محال ہے چہ جائیکہ کہ وہ کائنات کو پیدا کرے) لھذا جب خالق کے سلسلے میں اصل وجود ہے تو اس کے سبب وجود اور اس کی خلقت کے بارے میں سوال کرنا ہی سرے سے باطل ہے۔

اسی طرح اللہ رب العزت کی ذات ازلی ہے اور اس کا وجود اس کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکتا۔ لھذا یہ سوال کرنا کہ اس کا وجود کیسے ہوا یا وہ کیسے پیدا ہوا انتہائی درجہ کی بیوقوفی ہے کیونکہ اس کے وجود کی کوئی ابتدا ہی نہیں ہے۔

مزید برآں اللہ رب العزت کو کمال مطلق حاصل ہے اور وہی اپنی مخلوق کو بھی کمال ھبہ کرتا ہے لھذا وہ موھوب سے زیادہ صفت کمال سے متصف ہے اور ہر وہ کمال جو مخلوق کے لئے ثابت ہے خالق کے لئے بدرجہ اولیٰ ثابت ہے ۔

چنانچہ جب اللہ رب العزت صفت کمال مطلق سے متصف ہے اور ضرورت و حاجت کمال مطلق کے منافی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ کامل مطلق کسی غیر کا قطعا محتاج نہیں ہو سکتا ہے چنانچہ اسی بنا پر خالق کسی غیر کا محتاج نہیں اور جب کسی غیر کا محتاج نہیں تو اس مطلب کہ وہ غیر معلول ہے اور جب غیر معلول ہے تو اس کے وجود کی علت دریافت کرنا اور اس کی پیدایش کے بارے میں سوال کرنا بھی باطل ہے ۔

اسی طرح اگر ہم کہیں کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خالق ہے چنانچہ کائنات کا کوئی  خالق ہے پھر اس کائنات کو پیدا کرنے والے کا کوئی خالق ہے پھر اس کے پیدا کرنے والے خالق کا کوئی خالق ہے پھر اس کے پیدا کرنے والے خالق کے خالق کو بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور کبھی ختم ہی نہیں ہوگا ۔اور اس (تسلسل) سے یقینی طور پر لازم آئے گا کہ کائنات کا کوئی خالق ہی نہیں ہے (کیونکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کائنات کو پیدا کرنے والے کا بھی کوئی خالق ہے تو اس سے اس کا مخلوق ہونا لازم آئے گا اور جو مخلوق ہو وہ خالق نہیں ہو سکتا اور جب خالق نہیں ہو سکتا تو پھر کائنات کو پیدا بھی نہیں کر سکتا)  مگر کائنات کے وجود سے پتا چلتا ہے یہ سوال اور فلسفہ ہی سرے سے باطل ہے  کیونکہ کائنات کے وجود کا مطلب ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور جو خالق ہوگا وہ مخلوق نہیں ہو سکتا۔

لھذا کائنات کا وجود لا تعداد فاعلین(خالقوں) کے عدم تسلسل کو مستلزم ہے اور ضروری ہے کہ فاعلین (خالقین)  کا سلسلہ کسی غیر معلول علت پر ختم ہو اور کسی ایک سبب پر تمام اسباب کی انتہاء ہو، جبکہ تسلسل کو تسلیم کر لینے کی صورت میں کوئی انتہاء ہی نظر نہیں آتا لھذا یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں کہ فاعلین (خالقین)  میں تسلسل ممنوع ہے اور ایک انتہاء کا ہونا ضروری ہے اور فاعلین و خالقین میں انتہاء اللہ رب العزت کی ذات ہے لھذا خالق کی خلقت کے بارے میں سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سائل کا دماغی توازن اپنی صلاحیت کھو بیٹھا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصولی طور پر یہ سوال باطل ہے بلکہ فی نفسہ سوال ہی میں تناقض ہے کیونکہ خالق کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے سوا سب کا خالق ہے یہی بات عقل اور منطق کے موافق ہے اور وہ خالق اللہ تعالی ہے۔

 

حسان بن عبد الغفار کٹرا شنکر نگر بلرام پور کے رہنے والے ہیں اور جامعہ اسلامیہ سنابل میں زیر تعلیم ہیں۔

 اس مضمون میں صاحب مضمون کے ذاتی راے ہے جدید نیوز یا اس کی ٹیم کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ، اگر قاری کو کوئی علمی عقلی یا مذہبی اختلاف ہے تو نیچے کمنٹ باکس میں جواب دے سکتے ہیں یا ہماری ویب سائٹ کی آفیشیئل ایمل پر اپنا جواب  ارسال کرسکتے ہیں، میعاری تحریر کو ضرور جگہ دی جائے گی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here