نصیب یا نظراندازی؟ نمیشا کو زندگی ملی، شہزادی کو موت…

اور چند سوالات

– ڈاکٹر میم الف نعیمی 

جنابِ شیخ ابو بکر صاحب، قاضی القضاۃ فی الہند، ایک جانا پہچانا نامہیں، اور آج کل سوشل میڈیا پر نہایت تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کو وہ توقیر حاصل ہو رہی ہے جو برسوں کی خدمت اور عوامی قبولیت کے بعد کسی کے حصے میں آتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک غیر مسلم خاتون، نمیشا، کی پھانسی کی سزا ملتوی کروانے میں ان کا کردار سراہا جا رہا ہے۔ انسانیت کی بنیاد پر کسی کی جان بچانا یقیناً ایک عظیم خدمت ہے، اور اس پر داد و تحسین بجا ہے۔

اُن کے اس اقدام نے اہلِ ہنود کے دل جیت لیے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کی انسان دوست شبیہ کو خوب اجاگر کیا جا رہا ہے۔ ایک مذہبی شخصیت کی جانب سے بین المذاہب رحم دلی کا یہ عملی مظاہرہ بلاشبہ ستائش کے لائق ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بے گناہ انسان کی جان بچانا صرف مذہب نہیں بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ اگر جنابِ شیخ نے ایک بے گناہ جان کو تختۂ دار سے بچانے میں کامیابی حاصل کی ہے تو یہ کارنامہ قابلِ فخر بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔

تاہم، آں جناب سے ایک سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں — اور امید ہے اسے گستاخی نہیں، بلکہ صدائے دل سمجھا جائے گا۔

شیخ صاحب، آج نمیشا کی سزا ملتوی کرا کے بھارتی میڈیا پر سرخیوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سوال ذہن میں کچوکے لگا رہا ہے کہ کچھ ہی ماہ قبل دبئی میں ایک بھارتی مسلم خاتون، شہزادی، کو قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ اُس وقت یہ دردناک واقعہ پوری قوم کی آنکھوں کے سامنے پیش آیا، مگر کسی بڑے مذہبی یا حکومتی قدم کی بازگشت نہ سنائی دی۔ عوام نے کوشش کی، اپیلیں کیں، مگر حکومت نے حسبِ روایت خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اور یوں، وہ مسلم بیٹی خاموشی سے تختۂ دار پر چڑھا دی گئی۔

مگر یہی وہ لمحہ ہے جہاں دل ایک تلخ سوال پوچھتا ہے — اس وقت ہماری مذہبی قیادت کہاں تھی؟ کیا اُس معصوم خاتون کی جان کی بھی کچھ قیمت تھی؟ کیا اس کی زندگی کے لیے کوئی سفارتی، سماجی یا دینی سطح پر کوشش کی گئی؟ اگر بھارتی حکومت نے سیاسی وجوہات کی بنا پر لاتعلقی اختیار کی، تو کیا ہمارے وہ علما اور مقتدر شخصیات، جو آج غیر مسلم کے لیے سرگرم ہیں، اُس وقت خاموش کیوں رہے؟ کیا شہزادی کی آواز اتنی کمزور تھی کہ کسی نے اُسے سنا ہی نہیں؟

اس واقعے نے ایک اور تلخ احساس کو جنم دیا ہے — کہ مسلمان، خاص طور پر بھارت جیسے ملک میں، بے یار و مددگار ہیں۔ نہ ان کی جان کی کوئی قیمت ہے، نہ آواز کی کوئی بازگشت۔ یہ دردناک سچائی ہے کہ ایک غیر مسلم خاتون کے لیے اجتماعی ضمیر جاگ سکتا ہے، مگر ایک مظلوم مسلمان عورت کی لاش سے بھی ہم غفلت کی چادر اوڑھے رہتے ہیں۔ کیا اس دوہرے معیار پر ہمیں خاموش رہنا چاہیے؟ کیا ہم صرف ان مواقع پر بولیں گے جب ہمیں واہ واہ یا سرخیاں ملنے کی امید ہو؟

آج ہندوستانی مسلمان سوال کناں ہے — کہ کیا ہماری عزت، جان اور حرمت پر بولنے والا کوئی باقی ہے؟ یا ہم صرف جذباتی تقریروں اور وقتی بیانات کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں؟ اگر ہماری قیادت واقعی امت کی رہنمائی کا دعویٰ کرتی ہے تو انہیں ہر مظلوم کے لیے بولنا ہوگا، چاہے وہ کسی بھی خطے یا پس منظر سے تعلق رکھتا ہو۔ ورنہ یہ تصور پختہ ہوتا جائے گا کہ مسلم قیادت صرف وقتی شہرت، سیاسی اشارے یا مخصوص مفادات کے تحت متحرک ہوتی ہے۔

اگر شہزادی کی جان بچانے کے لیے بھی اسی درد، جذبے اور ہمت سے کام لیا جاتا جس طرح نمیشا کے لیے کیا گیا، تو شاید آج وہ بھی زندہ ہوتی۔ لیکن شاید یہ اُس کا نصیب تھا۔ افسوس کہ ہمارے ہاتھ اب صرف افسوس ہی رہ گیا ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے — کیا ہم ہمیشہ ایسے ہی صرف تماشائی بنے رہیں گے؟

– ڈاکٹر میم الف نعیمی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here