٭تعلیمی مراکز اور بیعت وارشاد کے حلقوں میں رنج وغم کی شدید لہر،ملک اور بیرون ممالک سے تعزیت کا سلسلہ جاری
٭ہزاروں مریدین ومتوسلین خصوصا خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف شدت درد وغم سے نڈھال
کیا خبر تھی موت کا یہ حادثہ ہو جائے گا اس زمیں کی پستیوں میں آسماں سو جائے گا
شہزادہ غوث العالم، جانشین مخدوم ثانی،مناظر اسلام،اشرف المشائخ پیر سید کمیل اشرف اشرفی الجیلانی،کچھوچھوی کا وصال پر ملال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
موصوف اپنے دور کے جید عالم دین،مشہور زمانہ شیخ طریقت،اور روحانی مرشد ومربی تھے۔
آپ کے چاہنے والوں کا حلقہ ملک وبیرون ملک افریقہ،امریکہ،یوروپ،کناڈا،جرمنی،انگلینڈ، موریشش،ملاوی، ساؤتھ افریقہ،تنزانیہ، سری لنکا،پاکستان،بنگلہ دیش، موریتانیہ، دبئی،شارجہ،سعودی عرب، کویت،یمن،عراق، سیریاوغیرہ تک پھیلا ہواتھا۔
آپ الجامعۃ الاشرفیہ کے مایہ ناز فرزند اور فارغ التحصیل فاضل تھے۔حافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز آپ پر بے پناہ اعتماد کرتے تھے۔ متعدد بار اپنی جگہ پر خطاب ومناظرہ کے لیے بھی ارسال فرمایا۔ فرغت کے بعد بھی الجامعۃ الاشرفیہ کے اساتذہ وذمہ د اران آپ کے یہاں تشریف لاتے رہے۔
آ پ نے بنیا دی طور پر شہر ممبئی کو اپنی دعوت وتبلیغ کا مرکز بنایا۔اور زندگی کے بیشتر ایام تبلیغی دوروں کے علاوہ ممبئی ہی میں گزارا۔
آپ عظیم روحانی شخصیت پیر سید طفیل اشرف اشرفی جیلان المعروف بہ مخدوم ثانی کے قابل فخر فرزندوں میں سے ایک تھے۔ آپ نے اپنے آبائی خانقاہ کو عالمی شہرت بخشی اورتعمیرات ورقی کاایک ریکارڈ قائم کردیا۔
آپ مختصر علالت کے بعد ممبئی کے ایک مشہور ہاسپیٹل میں ۵ نومبر ۲٠٢٠ء بروز جمعرات ۱۱بجے دن میں انتقال فرما گئے ۔
آپ کی پہلی نماز جنازہ ناریل واڑٰ قبرستان میں بعد نماز عشا ادا کی گئی۔
٦نومبر بروز جمعہ ٩ بجے کی فلائٹ سے آپ کا جسدِ اطہر کچھوچھہ شریف لے جایا جائے گا۔اور وہین تدفین عمل میں آئے گی۔
مشہور مذہبی رہنما شیخ الہند مولانا شید محمد اشرف کچھوچھوی
صاحب نے کہا کہ موصوف کے انتقال سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کافی الحال پر ہو نانا ممکن ہے۔آپ کا وصال پر ملال پورے خانوادہ اشرفیہ کا نقصان ہے۔انھوں نے کہا کہ خانوادہ اشرفیہ کا ایک فرد اورآ ل انڈیا علما و مشائخ بورڈ کاصدرہونے کی حیثیت سے مجھے حضرت کے وصال سے شدید ذہنی صدمہ پہونچا ہے،آپ کا وصال پرملال عظیم علمی وفکری نقصان ہے۔
معروف اسلامی اسکالر مولانا مقبول ا حمدسالک مصباحی نے کہا کہ حضرت پیر طریقت کی اگر چہ ایک پیر اور بیعت وارشاد کے عظیم شیخ کے طور پرہوئی مگر علمی اعتبار سے آپ کاپایہ بہت بلند تھا۔اکابر علماآپ کی علمی صلاحیت اور پختگی کالوہا مانتے تھے۔آپ کا وصف خاص خطابت تھا جو کچھوچھہ کا خاندانی طرہ امتیاز ہے،مگر چونکہ آپ نے خطابت کو بھی پیشہ کے طور پر نہیں اپنایا لہٰذا یہ فن بھی آپ کی پہچان نہ بن سکا،مگر جب آپ خطاب فرماتے تو اس فن کے اساتذہ خود کو طفل مکتب تصور کرتے۔مولانا مصباحی (جو آپ کے قابل فخر مریدین میں سے ایک ہیں )نے کہا کہ ان کے چلے جانے سے علما اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہے ہیں۔
مفتی محمد منظر خان اشرفی جامعہ حجازیہ گھاٹ کوپر ممبئی نے کہا حضرت علیہ الرحمہ یقینا ذی علم وعمل اور صاحب فضل وشرف ہونے کے ساتھ ہی ساتھ عظیم خانقاہ اشرفیہ کے شہزادے اورآپ کی ذات خانوادۂ اشرفیہ کی عبقری ومرجع الخلائق تھی۔آپ کی خطابت علمی،فکری،اسرارورموز سے پرہوتی تھی۔معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح بیان فرماتے کہ جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
مولاناجمال احمد صدیقی ممبر ا(مہاراشٹرا)نے کہا کہ آپ کی محبت عام تھی۔ اپنے سے کم عمروں پرنہایت شفیق تھے بالخصوص کم عمر علما سے نہایت مشفقانہ رویہ رکھتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے جوآج کے دور میں کم یاب ہے۔ملاقات کے وقت اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ تکبر ونخوت سے پاک تھے۔مشربی اختلافات سے دور تھے۔حق گو،بے باک تھے۔ ان کا وصال اہل سنت کا بڑاخسارہ ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔
مولانا ظفر الدین برکاتی چیف ایڈیٹر ماہنامہ کنز الایمان نے کہا کہ اہم شخصیتوں کے چلے جانے کے بعد ہم آنسو بہاتے ہیں،اور ان کے درد کو محسوس کرتے ہیں،اگر ا؎زندگی ہی میں ان سے فیض وبرکت زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جاتا تو کیا ہی بہتر ہوتا۔انھوں نے کہا کہ حضرت کی شخصیت انتہائی غیر متنازعہ تھی،آپ مشربی تنازعات کے کبھی شکار نہیں ہوئے۔آپ درحقیقت صوفیا کے مسلک صلح الکل پر فائز تھے۔
مولانا عرفان احمد اشرفی ڈائریکٹر الاشرف نیٹ ورک نے کہا حضرت کا وصل علمی دنیا خصوصا خانوادہ اشرفیہ کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔آپ اہل سنت و جماعت کے ایک قابل فخر عالم دین اور عظیم پیر طریقت تھے۔آپ نے خطابت و طریقت کے ذریعہ دین و سنیت اور سلسلہ اشرفیہ کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔آپ خطیب اسلام اور خطیب اعظم کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔
مولانا قاری عمران احمد اشرفی صدر روبوڑی تھانے شاخ آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ نے کہا کہ حضرت کا نورانی شہرہ برسوں یاد آئے گا اور ہمارے دلوں وک تڑپائے گا۔آپ کا نورانی شہرہ دیکھ کر غم زدہ اپنا غم بھول جاتا تھا۔ان کی شخصیت غمزدوں کے لیے مرہم شافی تھی۔آپ کا دستر خوان اتنا نفیس اور وسیع تھا کہ امیر وقت بھی آکر بھونچکا رہ جاتاتھا۔آپ کارعب ودبدبہ عطائی تھا،بڑے سے بڑے جاہ حشمت والے کو آپ کے سامنے بلا اجازت لب کشائی کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم کے صدقے آپ کو غریق رحمت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔نیز درجات عالیہ سے سرفراز فرمائے اورپسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
مولانا ڈاکٹر سراج احمد مصباحی،
جامعہ ملیہ اسلامیہ،جامعہ نگر،اوکھلا،نئی دہلی
























































