احمد رضا اشرفی
از-احمد رضا اشرفی

زندگی کے شب و روز اتنی سرعت کے ساتھ جانب منزل رواں ہے کہ ہر گزری ہوئی بات کل کی اور ہر سانحہ تازہ دم لگتا ہے یہ اگست کا مہینہ ہے گزشتہ ۵۱ اگست کو ہماری ملکی آزادی کا جشن بڑی احتیاطی تدابیر کے ساتھ منایا گیا۔اس مہاماری آفت جاں بیماری نے ہر طرف واویلا مچا رکھا ہے جس کی خطرناک صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ شان و شوکت کے ساتھ تو نہیں لیکن پھر بھی جیسا منایا گیا وہ خوب تر رہا۔
بہر کیف!عرض مدعا یہ ہے کہ آزادی کی خوشیاں اس وقت ماند پڑ جاتی ہے جب کبھی کبھی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ایک طبقہ ملک کے تئیں اپنی محبت ان کے مزاج کے عین مطابق پیش کرے تب ہی وہ محب وطن کہلانے کہ حق دار ہوں گے ورنہ ان کی حب الوطنی مشکوک۔ زیر نظر انہیں کچھ حساس مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ ماہ قبل تبریز انصاری جیسے بہترے واقعات رونما ہوئے بقرعید کے موقعے پر بھی کچھ جگہوں سے ایسے ہی دلدوز خبریں موصول ہوئیں ابھی کچھ دنوں قبل ایک مسلم بزرگ آٹو ڈرائیور کے ساتھ نا روا سلوک کا معاملہ روشنی میں آیا اور ان سب میں سب سے اہم ہماری مذہبی آزادی پر قد غن لگاتے ہوئے اس مقبوضہ آراضی پر مندر کا نرمان اور بنگلور کی سرزمین سے ایک سیاسی اثر و رسوخ والا بدمعاش کا توہین آمیز مواد شوشل نیٹ ورک پر شائع کرنا اور اس پر بر وقت کاروائی کا نہ ہونا جس کی پاداش میں کئی جانیں ضائع اور کئی مالی نقصانات او ر اس پر طرفہ تماشہ کہ ایک مضحکہ خیز صفائی پر یقین یہ سب صاف کرتا ہے کہ کچھ تو ہے؟
پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر ہمارے ہی ساتھ یہ معاملات کیونکر پیش آتے ہیں؟اور اس کاسدباب کیسے کیا جائے؟ تو آئیے پہلے ہم ان قوانین پر نظر ڈالتے ہیں جس کی روشنی میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہم انہیں دستور العمل سے کچھ مخصوص دستور پر روشنی ڈالیں گے جس سے ہماری صبح امید نسل نو کے قارئین کو کچھ آگاہی اور اطمینان قلبی حاصل ہو اور ساتھ ہی ہمارے ساتھ ہو رہے گھنا ؤنے برتاؤ کے تدارک کے راہ بھی ہموار ہوں۔
(۱) برابری یا مساوات کا حق Right of Equality
(۲)شہری آزادی Civil Liberty
(۳)شخصی آزادی Individual Liberty
(۴) مذہبی آزادی کا حق Right to Religious Freedom
(۵) تہذیبی اور تعلیمی حقوق Cultural and Educational Rights
(۶) دستوری داد رسی یا داد رسی کے بارے میں Right to Constitutional Remedies
مندرجہ بالا دستورکے ہر ایک عنوان پر گفتگو کی جائے تو مقالہ طویل ہوتا جائے گا اور حاصل مطلب ادھورا،لہٰذا ہم ان میں سے صرف ایک پر روشنی ڈالیں گے اور وہ ہے مذہبی آزادی اور اس کے ضمن میں تھوڑی سی گفتگو تہذیبی اور تعلیمی حقوق پر بھی۔
بہر حال آمدم بر سر مطلب مذہبی آزادی کا حق۔ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے یہاں کے باشندے مذہبی ہیں اور روز مرہ کی زندگی مذہب کے قوانین کے مطابق گزارتے ہیں،پھر اس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے سیکڑوں برسوں سے رہتے چلے آئے ہیں اور یہاں کے لوگوں نے کبھی دوسروں کی مذہبی آزادی پر کسی قسم کا حملہ نہیں کیا۔اس لیئے دستور میں مذہب کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے اور جملہ ہندوستانیوں کو مذہبی آزادی عطا کی گئی ہے۔ لیکن اسٹیٹ کا کوئی مذہب نہیں ہے اس لیئے دستور کی ۲۴ ترمیم کی رو سے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے۔یہ ہر مذہب کا احترام کرے گی اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔
امن عامہ،اخلاق عامہ اور صحت عامہ کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر شہری کو بے روک ٹوک اور بلا کسی پابندی کے کسی بھی مذہب کو ماننے اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے۔سکھوں کو کرپان باندھنے اور اس کو لیکر چلنے کا حق دیا گیا کیوں کہ یہ ان کے مذہب میں داخل ہے۔ہر ملت کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ مذہبی اور خیراتی اغراض کے لیئے ادارے قائم کرے اور اپنے مذہبی معاملات کا خود ہی انتظام کرے۔اپنی عبادت گاہوں کا خود انتظام کرے اور اس غرض کے لیئے منقولہ (Moveable) اور غیر منقولہ جائیدادوں کا مالک ہو اور اس کا انتظام کرے۔ہر ملت کو حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی تعلیم دینے کے لیئے نئی درسگاہیں قائم کرے اور پرانی درسگاہوں کو قائم رکھے۔
اقلیتوں کو اس کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے کلچر،تہذیب،زبان اور رسم الخط کو برقرار رکھیں اور ترقی دیں۔اقلیتوں کے کسی فرد کو کسی سرکار ی تعلیمی ادارے یا سرکار کی طرف سے تسلیم شدہ ادارے میں صرف اس وجہ سے داخل ہونے سے نہ روکا جائے گا کہ اس کا تعلق اقلیت سے ہے۔ بالفاظ دگر تعلیم گاہوں کے دروازے کسی ملت کے افراد پر بند نہیں کیئے جا سکتے (ورلڈ کانسٹی ٹیوشن)
حاصل تحریر!اب تھوڑا سا ہم اپنی قوم کے شب و روز پر نگاہ ڈال کر دیکھیں کہ ہم کہاں ہیں؟ ہمارے حقوق کیا کیا تھے اور اپنی نہ اہلی کے باعث ہم آج کس موڑ پر کھڑے ہیں مذہبی و تعلیمی آزادی ہمیں ملی لیکن ہم نے اس کو استعمال نہیں کیا۔تواریخ کے مطالعے سے یہ عیاں ہے کہ ہماری ترقی اور تنزلی دونوں کے اسباب ہمارے اعمال ہی ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا ”وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر“وجہ یہ تھی کہ جب فرزندان توحید نے پرچم حق و انصاف چار دانگ عالم میں لہرایا اور اسلامی فتوحات زورں پر تھی تو کئی ریاستیں قائم ہوئیں ان تمام میں ایک چیز کو بہت اہمیت دی گئی مدینہ منورہ سے لیکر ایران و بیت المقدس تک مکۃ المکرمہ سے لیکر یورپ کے کلیساؤں تک جہاں جہاں اسلامی نظام پہنچا وہاں وہاں تعلیم و تجارت اور عدل و انصاف کے نفاذ کو یقینی بنایا گیا،لیکن جب ہمیں آزادی ملی تو ہم نے جو سب سے پہلے ترک کیا وہ اسلامی شعار،شریعت کی پاسداری،تعلیم و تعلم اور انصاف کا دامن۔ جس کا خمیازہ کبھی اپنی عبادت گاہوں کی منہدمی سے چکانا پڑتا ہے اور کبھی ماب لنچنگ جیسے دل آزار واقعوں سے، کبھی عدلیہ کے سوتیلے پن سے دل چھلنی ہوتا ہے تو کبھی حکومت کی دو رخی پالیسی سے۔لیکن ہم ہوش کے ناخن لینے سے آج بھی کترا رہے ہیں تعلیمی میدان ہو یا تجارتی ہر جگہ ہم پسپا،مذہبی شعار کو ہم بچا نہ سکے اب اپنا وجود بھی خطرے میں ہے۔لیکن۔۔۔۔۔لیکن کیا؟ ہم تو ہم ہیں۔
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے شوشل نیٹ ورک پر بلیک ڈے بلیک ڈے جیسی ہزاروں پوسٹ دیکھنے کو ملی،ہم مؤدبانہ عرض کرنا چاہیں گے و اقعی اگر ملک و ملت اور قوم کی بھلائی مقصود ہے تو بلا تمیز مسلک و مشرب اپنے اپنے عقائد کے تحفظ و تشخص کے ساتھ اسلاف کے نقش قدم پر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں چونکہ یہی وہ راستہ ہے جہاں سے منزل کا عکس صاف دکھتا ہے۔

علامہ اقبال کے حسرت بھرے جذبات کے ساتھ اجازت چاہوں گا

منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک 
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک 
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک 
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

محمد احمد رضا اشرفی
گریڈیہ جھارکھنڈ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here