انیس ویں صدی کے عظیم المرتبت ولیء کامل حاجیا سیّد وارث علی شاہ

از. شاہ فیروز وارٹی

حضرت وارث چراغ خاندان پنجتن
یادگار پنجتن نام و نشان پنجتن
شاہ تسلیم و رضا ابن شہید کربلا
خواجۂ گلگوں قبا روح روان پنجتن
نیر برج سیادت گوھر تاج شرفا

ے گل زہرا بہار بوستان پنجتن

اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنّی اور سِّرِ وحدت سے اپنے مخصوص انبیاء، مرسلین، پنجتن پاک، اھلِ بیت، چہاردہ معصومین، آلِ محمّد اور انکے وارثین اوصیاء، عرفاء، اولیاء اور صوفیاء کو سرفراز فرمایا ہے اور قرآن پاک، حدیث پاک، نہج البلاغہ، فرموداتِ ائمّہ اطہار کے بعد اگر کسی کلام کو عظمت و فضیلت و اہمیت حاصل ہے تو وہ اولیاء اللہ کے کلام کو کیونکہ انکا کلام ظاہری تصّنع سے پاک عشقِ الہیٰ میں ڈوبا ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ان حضراتِ اولیاء اللہ کو علمِ لدنّی و معرت وروحانیت سے نواز تے ہوئے انہیں خدمتِ خلق اور حقوق العباد کا مشعل بردار قرار دیا ہے- ایسی نادر اور شاہکار ہستیوں میں ایک نام سر فہرست 19 ویں صدی کے ولیءکامل حضرت سید وارث علی شاہ الحسینی کاظمی کا ہے جنہیں انکے کروڑوں مرید اور لاکھوں لاکھ طالب و معتقدین عرف عام میں” وارث پاک” کہتے ہیں- اللہ ذوالجلال نے اس صفحہءہستی پر چہاردہ معصومین، آلِ محمد، صالح اور خدا شناس اصحاب پنجتن پاک کے بعد ہر دور میں منتخب اور نامزد امام زمانہ کی متابعت میں ایسے ایسے برگزیدہ بندوں کو جلوہ افروز فرمایا ہے جنکا نام نامی اسم گرامی تادم کائنات روشن اور درخشان ستاروں کی طرح منّور رہے گا- ایسی ایک ممتاز اور منفرد ہستی، جسکا تعلق براہ راست آلِ محمد صلعم سے ہے، سیّد العاشقین، معراج الاولیاء، مخدوم الاصفیاء حقیقتِ خضرِ راہ طریقت، واقفِ اسرارِ حقیقت اور تاجدارِ معرفت، اشرف العالمین شہنشاہِ دیویٰ شریف حضرت الحاج و حافظ سیّد وارث علی شاہ الحسینی الموسوی کی ذاتِ اقدس محتاجِ تعارف نہیں-آپکی ذات گرامی سے ضمنی سلسلہءوارثیہ منسوب ہے جو سلاسل قادریہ اور چشتیہ کا امتزاج ہے اور جس کے ذریعے مذہبی، باطنی، روحانی، عرفانی اور انسانی فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے-آپکی زندگی پیرویء سنّت محمدی اور آلِ محمدی کا نادر اور عدیم المثال نمونہ تھی- آپکے افکارِ عالیہ قرآن، احادیث اور تعلیماتِ چہاردہ معصومین کی تفسیر ہیں-
آپکی ولادت باسعادت اتر پردیش ریاستِ ھند کے شہر بارہ بنکی کے قصبہ دیویٰ شریف میں یکم رمضان المبارک 1238 ھ اور وصال یکم صفر 1323 ھ بمطابق 7 اپریل 1905 ء ہے- دیویٰ شریف میں اس وقت آپکے دلکش عالیشان مزار مبارک سے فیضِ عام جاری ہے
آپکے والد بزرگوار کا نام نامی حافظ حکیم سید قربان علی شاہ اور والدہ کا نام سیدہ بی بی سکینہ ہے- آپکے ظاہری مرشد حقیقی بہنوئ سید خادم علی ہیں، جنکا مزار گولہ گنج لکھنؤ میں واقع ہے، جو قادری، چشتی اور نقشبندی سلاسل ککے خلیفہ تھے- وارث پاک انکے چہیتے اور ہردلعزیز خلیفہ اور جانشیں تھے جو قادری اور چشتی سلسلوں کو مشعلِ راہ بنائے ہوئے تھے- وارث پاک کو روحانی بیعت اسد اللہ،صاحبِ ذوالفقار، ابو تراب، مولائے کائنات، امام العارفین، امام المتقیین، امام الصادقین، امام المحسنین، امام المخلصین حضرت علی بن ابو طالب نے روبرو عطا کی تھی- انکا شجرہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی 26 ویں پشت میں ہے اور 7 ویں امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام کی نسل سے نیشاپور، ایران کے نجیب الطرفین سادات و ذی الفضائل و برکات کے خاندان میں جاہ و جلال فرمایا اور تمام عمر خاص و عام کو محبتِ شاہدِ حقیقی کی ہدایت فرمائ-آپ بطنِ مادر سے ولی پیدا ہوئے تھے- آپکی کتابِ عمر کا دیباچہ عشقِ الہیٰ کے عنوان سے شروع ہوتا ہے اور خاتمہءکتاب پر بقا فی الذات کی مہر لگی ہوئ تھی یہی وجہ ہے کہ قدرتاً آپ کا نام نامی بھی اللہ کے صفاتی نام وارث سے منسوب ہوا جس سے آپ واصل ہونے والے تھے یعنی” وارث”-
وارث پاک شبستانِ مصطفیٰ کی شمع، گلستانِرتضیٰ کے گلاب، نیستانِ عشق کے شیر ببر اور تسلیم و رضا کے تاجدار ہیں- آپ نے اپنی ساری زندگی محبتِ حقیقی کی تبلیغ میں گزاری- انہوں نے بتایا کہ مودتِ اھل بیت اور معرفتِ الٰہی کیا ہے دراصل خدمتِ خلق ہی خدمت خدا ہے اور محبت کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلایا-
سات سال کی عمر میں آپ قرآن کریم حفظ فرماچکے تھے اور صرف 14 سال کی عمر میں اھلِ طریقت کے دستور کے مطابق آپ کی دستار بندی کی گئ اور اسی وقت سے آپ کی ذات بابرکات سے سلسلہءرشد و ہدایت بھی جاری ہوگیا- 15 سال کی عمر میں دربارِ خواجہ غریب نواز میں میں حاضر ہوئے ت و جوشِ ادب میں جوتا پہننا بھی ترک کردیا- حج کےلئے احرام جو باندھا تو ہمیشہ کے لئے دنیاوی لباس ہی ترک فرمادیا- جّد اعلٰی مولا علی کے روضہءاقدس پر حاضر ہوئے تو صفتِ بوترابی کے اثر سے زندگی بھر کےلئے فرشِ خاک کو اپنا بستر بنالیا- کربلا ئے معلّٰی پہونچے تو تشنہ لب شہداء کے غم میں ہمیشہ کےلئے بھوک اور پیاس کو اپنا توشہ بنالیا-
آپکی نورانی شخصیت میں وہ مقناطیسی اثرات تھے کہ سارا زمانہ آپ کی طرف کھنچا چلا آتا تھا- آپکی صورت کو جس نے ایک بار دیکھا وہ ہمیشہ کےلئے فریفتہ اور گرویدہ ہوگیا- عرب کی سیاحت کے دوران خود اہلِ عرب آپکے مرید ہوئے، ترکی پہنچے تو سلطان عبد الحمید خاں مع اہل و عیال آپ.کی غلامی میں آگئے، یوروپ کی سیرو سیاحت میں جرمنی کے شہزادہ بسمارک نے آپکی میزبانی کے فرائض انجام دئے- شہزادہ سرویا آپکا مرید ہوا اور شہزادہ ملان معتقد ہوکر آپکا مطیع و فرمانبردار بنا- اسی طرح بارہ سال تک مسلسل آپ عرب و حجاز، ایران و عراق، فلسطین و شام، مصرو ترکی، روس و جرمنی، اور تمام یوروپ میں روحانیت نورانیت کا تبلیغی دورہ کرتے رہے- آپ نے اسلام کی بلند ترین روحانی، باطنی اور عرفانی تعلیمات کو ساری دنیا میں عام کیا اور عشقِ الٰہی کی لامحدود و لافانی اقدار کو اپنی بے پناہ قوّتِ باطنی سے دلوں میں جاگزیں فرمایا- آپکی ساری زندگی غمِ محبت سے شعلہ زار اور عشقِ الٰہی سے سرشار تھی- زندگی بھر آپکا کوئ لمحہ ذکرِ الٰہی اور یادِ الٰہی سے خالی نہیں گیا، احرام کو کفن اور زمین کو قبر کی منزل سمجھا چنانچہ موتو اقبل ان موتو کی سچّی تصویر بنے رہے- زندگی بھر راحت کا سامان مہیا نہیں کیا- حتٰی کہ کبھی کسی پلنگ، مسہری، تخت، چوکی، کوچ، کرسی اور مونڈھے وغیرہ پر آرام نہ فرمایا نہ کبھی مسند لگائ نہ سر کے نیچے کبھی تکیہ رکھا نہ تمام عمر آسودہ ہوکر کوئ غذا کھائ- تسلیم و رضا کی ایسی عادت ڈالی تھی کہ اپنی بڑی سی بڑی تکلیف کا کبھی اظہار تک نہ کیا- نہ ہی کسی کا شکر ادا کیا نہ کسی سے شکوہ و شکایت کی- صبر، ضبط، تحّمل و توّکل کو اس درجہ اپنالیا تھا کہ سردی و گرمی کا احساس ہی جاتا رہا- آپ نے کبھی خود کو کسی سے برتر نہ سمجھا اور نہ ہی کسی غیر کو اپنے سے کمتر جانا- سونے چاندی کو کبھی آنکھ اٹھاکر نہ دیکھا، روپئے پیسے کو کبھی ہاتھ نہ لگایا- تمام عمر کسی سے کچھ نہ مانگا اور اپنے در سے کسی کو خالی ہاتھ جانے نہ دیا
پابندیءوضع کا یہ عالم تھا کہ جو بات ایک بار آپ ست سرزد ہوگئ وہی ہمیشہ کےلئے آپکی مستقل عادت بن گئ- چہرہءانور جیسا روشنی میں نظر آتا تھا ویسا ہی اندھیرے میں صاف و شفاش دیکھ لیا جاتا تھا- پائے مبارک کبھی خاک یا کیچڑ میں آلودہ نہیں پائے گئے- تمام عمر دنیا بھر کا پیدل سفر کرنے کے باوجود تلوے نرم و نازک تھے- ہر مجمع میں آپ سرفراز و بلند نظر آتے تھے- حسن و جمال کا یہ عالم تگا کہ دیکھنے والا ششدر اور متحّیر رہ جاتا تھا-
آپکی عظمت کا چرچا بر صغیر کے علاوہ ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یوروپ کے باشندوں تک پھیلا ہواتھا، تقریباً ڈیڑھ لاکھ غیرمسلموں کو آپ نے مشرف بہ اسلام کیا اور ہزاروں مشرکوں کو آپ نے موحد بنادیا- آپکے یہاں ذات پات، رنگ و نسل، مذہب و قوم کی کوئ تفریق نہ تھی- دربارِ وارث میں راجوں، مہاراجوں، ریاست کے والیوں، نوابوں، سرکاری عہدہ داروں اور رئیسوں کی صف میں غریبوں اور کمتروں کو جگہ ملتی تھی- آپ کا مسلک و مشرب” عشقِ الٰہی” اور پیغام” محبّت” تھا. سرکار عالم پناہ کی ذات اقدس عامتہ المسلمین ہی نہیں بلکہ عوام الناس کے لئے آئین کے ہدایت اور مشعلِ راہ ہے- انکی زندگی کے ہر پہلو سے شریعت، طریقت، حقیقت و معرفت کا درس مل رہا ہے- کچھ لوگ لاعلمی اور نام نہاد وارثیوں کی بے عملی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ حضرت وارث. مجذوب تھے اسلئے شریعت کے پابند نہیں تھے- یہ الزام قطعی غلط اور لغو ہے- آپکے اقوال، افعال، اعمال و احوال عین شریعت کے آئینہ دار تھے- آپ نے ہمیشہ شرعی احکامات کا احترام کیا ہے- اب اگر کوئ شخص سلسلہءوارثیہ میں شرف بیعت حاصل کرنے کے بعد شریعت سے ہٹ کر زندگی گزارے تو یہ وارث پاک کی تعلیم نہیں بلکہ اسکا ذاتی فعل ہے- آج اگر مسلمان شریعت کے ارکان پر عمل نہ کرے تو یہ کیا قرآن کی تعلیم ہے؟ اگر مسلمان شراب خواری کرتا ہے تو کیا اسلام موردِ الزام ہوگا، اگر کوئ صوفی خدا پرستی ترک کرکے دنیا پرستی، نفس پرستی اور ہوس پرستی میں ملوث ہے تو تصؤف، اھلِ طریقت اور اھلِ سلاسل کو گمراہ اور زندیق کہنا یا تمام اولیاء اور صوفیاء کو کافر و مشرک قرار دینا کیا انصاف ہے؟ کیا انہوں نے اسلامی شریعت اور سیرت محمد و آلِ محمد پر عمل درآمد کرتے ہوئے شاہِ ولایت مولا علی اورآلِ محمد کے باطنی، روحانی، نورانی اور عرفانی علوم کی ترویج و اشاعت کرکے زندیقیت اور انحرافِ دین کیا ہے؟ کیا کچھ جعلی، ڈھونگی، نقلی، نمائشی، دنیاوی اور لالچی صوفیوں کی وجہ سے عرفاء، صوفیاء اور اولیاء کو زندیق کہنا جائز ہے جنہوں نے ساری زندگی یادِ الٰہی، سیرت و سنت ِ آلِ محمد کی پیروی اور خدمتِ خلق میں صرف کردی اور پنجتن پاک اور من کنت مولاہ فھٰزا علی مولاہ کو اپنا منبع محور اور مقصد و ملزوم عقیدہ رکھا…. افسوس ہر دور کے علماء ظاہر اپنے عیوب اور دنیا پرستی پر پردہ ڈالنے کےلئے اھلِ معرفت سے انتقام لیتے رہے، سولی پر چڑھواتے رہے، کھال کھچواتے رہے، گردن تن سے جدا کراتے رہے، قتل کے فتوے دیتے رہے مگر یہ محبانِ اھلِ بیت علوی اور حسینی روش سے دستبردار نہیں ہوئے اور معرفت کی شمع فروزاں رکھی تمام مخالفتوں، عداوتوں اور مخاصمتوں کے باوجود…. حبیبِ رب العالمین، جانِ رحمتہ العالمین، شانِِ مولائے کائنات، رہبر ِشریعت، مرشدِ طریقت، رہنمائے حقیقت اور ھادیءمعرفت وارث پاک قرآن کریم کی جامع تفسیر، احادیث محمد و آلِ محمد کے وارث اور اولیاء، عرفاء اور صوفیاء عظام کے اقوال، افعال، اعمال، احوال و تعلیمات کے علمبردار تھے-
وارث پاک مجرد تھے آپ نے شادی نہیں کی تھی بچپن ہی سے محویت میں رہکر عشقِ الٰہی میں مصروف رہے . عشقِ کامل کا نتیجہ لازمی ہے- آدابِ عشق یہ ہیں کہ راہِ طلب میں فقیر ننگے سر اور پابرہنہ رہے- آپکی ذات محمود الصفات کو مرتبہ تسلیم و رضا سے خاص نسبت تھی- آپ فرماتے ہیں کہ” تسلیم و رضا اھلِ بیت کے گھر کی لونڈی ہے”-” تسلیم و رضا کا مرتبہ بی بی فاطمہ نے اپنے بابا جان سے پایا اور حضراتِ حسنین کی وساطت سے جس کا. جس قدر حصّہ ہے وہ اسے ملتا ہے”- آپ نے فرمایا کہ” شکر اھلِ تسلیم و رضا کا مشرب ہے اور مشائخین کا مسلک اور ہے”- غرضکہ تسلیم و رضا مخصوص طور پر عاشقین کا مسلک و مشرب ہے، رضا ثمرہ ہے محبت کا اسیلئے محبِ صادق اپنے محبوب کے ادائے دلنواز کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا ہے اور ہر حال میں رضا برضائے محبوب رہتا ہے- آپ نے فرمایا” ہماری منزل عشق ہے اور منزلِ عشق میں انتظام نہیں… ہمارا مشرب عشق ہے اور عشق میں خلافت، جانشینی اور سجّادگی نہیں ہے… جو کوئ دعوٰیِ جانشینی کرے وہ باطل ہے، ہمارے یہاں کوئ ہو، چمار ہو یا خاکروب جو ہم سے محبت کرے ہمارا ہے”-
وارث پاک نے حج سے واپس آکر احرام شریف نہیں اتارا اور دربارِ خداوندی کا لباس ہمیشہ کےلئے زیب تن فرمالیا- زیادہ تر آپ زرد رنگ کا احرام استعمال فرماتے تھے” یہی لباسِ زندگی ہے اور یہی کفن ہے”-آپکے فقراء اسی احرام میں دفن کئے جاتے ہیں-
وارث پاک خلافِ محبت کوئ بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے اور یہی آپکی تعلیم و ہدایت تھی-آپکے اقوال، ارشادات اور فرمودات نہایت اہم اور بصیرت افروز ہیں-آپکے تمام ملفوظات میں عشق و توحید اور تصدیق و یقین ہی کی تعلیمات ہیں جنکی تشریح کےلئے ایک دفتر چاہئیے- آپ فرماتے ہیں” مسجد، مندر، گرجا میں جہاں جائے سوائے ایک شان کے کچھ اور نہ دیکھے”- کیونکہ حقیقت میں وہی ایک صورت ہے جو کعبہ و دیر میں جلوہ فگن ہے-
وارث پاک کی فقیری اور سلسلہءوارثیہ کا طرّہءامتیاز عشق و محبت ہے- آپ اپنی منزل کو منزلِ عشق فرمایا کرتے تھے- انکی ذات برکات عشق کا ایک کامل نمونہ تھی-آپکو دیکھتے ہی جذباتِ عشق، قلب میں موجزن ہونے لگتے تھے- آپکی عادات و اطوار، حرکات و سکنات سب میں عشق کا ظہور تھا-آپکی بات بات میں عشق و محبت کے نکات ادا ہوتے تھے- آپ نے حقیقت کی نگاہ میں محبت کے برابر کسی چیز کو فوقیت نہیں دی- آپ نے فرمایا” عشق تین حرفوں ع+ ش+ ق سے مرکب ہے ع سے عبادتِ الٰہی ش سے شریعت کی تمام شرائط کے ساتھ ادائیگی ق قربانی کی رغبت دلاتا ہے یعنی اپنے نفس کو سچّے ذوق و شوق سے قربان کرو” آپکی زبانِ مبارک سے وقتاً فوقتاً عشق کے بارے میں اور دیگر اہم مسائل پر جو جملے نکلےتبرکاً پیش ہیں
جو پی لے ایک پیمانہ میرے مخدوم وارث کا
رہے تا حشر دیوانہ میرے مخدوم وارث کا
سلاطین زمن آکر جہاں گردن جھکاتے ہیں
ہے وہ بستر فقیرانہ میرے مخدوم وارث کا
مظہرِ حق و صداقت حجّت دین ھدٰی وارث کے بعض مختصر اقوال و ارشادات ملاحظہ ہوں:—-
1- منزلِ عشق میں ذات و صفات ایک ہوجاتے ہیں
2. عاشق کا کمالِ عشق یہی ہے کہ وہ معشوق ہوجائے
3- جب عاشق معشوق کی ذات میں فنا ہوگیا تو عاشق عین معشوق ہوگیا، یقیناً عشق و توحید لازم و ملزوم ہیں
4- عاشقِ کامل ہی موّحدِ کامل بھی ہوسکتا ہے جو ہر ذّرہ میں معشوق کے سوا کچھ نہیں دیکھتا
5- خدا اس وقت ملےگا جب من و تو کا جھگڑا چھوڑ دوگے
6- خدا تم میں ہے مگر تم دیکھ نہیں سکتے
7- جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے اسکو کوئ نقصان نہیں پہونچاسکتا جو خدا کل امراض کو دور کرسکتا ہے وہ بھوک اور پیاس کی زحمت کو بھی مٹادیتا ہے
8..ہمأرأ فقیر وہ ہے کہ اگر سات دن کا فاقہ بھی ہوجاۓ تب بھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاۓ 9.. سنا سنا محبت کرو محبت ہی ایمان ہے جسکے اندر محبت نہیں اس کے اندر ایمان نہیں
امت مسلمہ باالخصوص مذہب حق کے
محبان عاشقان اور پرستاران کو اللہ پاک توفیق عطا کریں کہ وہ امام الفقراء، ام الفقراء اور شاہ الفقراء کے درجات کی معرفت حاصل کرکے راہِ حق اور صراطِ مستقیم دیکھ کر اس پر باقی رہیں- اللہ تعالٰی پنجتن پاک اور چہاردہ معصومین کے طفیل میں شاہِ ولایت مولا علی کے صدقے میں محبان اور عاشقانِ محمد و آلِ محمد، صالح اصحاب، عرفاء، اولیاء اور صوفیاء حق کی راہ پر گامزن فرمائیں.
آپکا آستانۂ اقدس دیوہ شریف بارہ بنکی یوپی میں
مرجعۂ خاص و عام ہے
جہاں رات دن بغیر مذہب ملت کے ہزاروں افراد فیضیاب ہوتے ہیں
یہ بارگاہ عشق ہے بے خوف ہوکے آ
نفرت کی آندھیوں سے یہ دالان پاک ہے
یکم صفر الظفر سنہ ہجری 1323 بمطابق 1905 بروز جمعہ آپکی تاریخ وصال ہے
تاریخی مادہ
پس چراشد آفتاب اندر حجاب
دیگر
عاشق صادق ملا معشوق سے
از. شاہ فیروز وارثی فیروز سنبھلی
فاضل. ایم اے اردو ایم ٹی ایچ. علیگ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here