محمد رضی احمد مصباحی
قوم کے بچوں پر برستی ہوئی لاٹھیاں ، نازک مزاج بچیوں کا زخمی ہونا کیا اسے ہم یوں ہی رائگاں جانے دیں گے ؟یاد رکھنا کہ ہرلمحہ یاد رکھاجاتا ہے ۔ تاریخیں قوم کے باحوصلہ جوان ہی لکھتے ہیں ۔ جن کے دل میں ایمان کی رمق باقی ہوتی ہے وہی میدان کارزار میں کودتے ہیں ۔ دوسروں کے ایمان پر فتوی داغ کر اپنا ایمان غارت کرنے والے بزدل ،ڈرپوک اور خسیس ہوتے ہیں ان کا کوئی ایمان نہیں ہوتاہے ۔ ایسے لوگوں کی تاریخ سے انسانیت ہمیشہ شرمسار رہی ہے ۔ اپنے ایمان سے سوال کروکہ ہمیں کیا کرناچاہیے ؟ یہی اپنے وجود کو بچانے کا ، اپنے ملک کی فلاح و بہبود کا بلکہ اپنے وطن عزیز کو بچانے کا۔ آو آگے بڑھو کہ قیامت اب پھر نہیں آئے گی۔ اگر اس وقت بھی سوتے رہے یااپنی خانقاہ میں اکٹھی کی گئی دولت کے بچانے کا سوچتے رہے تو یہ بھی مت بھولئے کہ خدا کے یہاں تو جو ہوگاسوہوگا ہی آپ اسی دنیا میں ذلیل وخوار کردیئے جاؤگے ۔ آپ سے پہلے بھی بہت لوگ تھے جن کی پارسائی کی قسمیں کھائی جاتی تھیں لیکن ان کی ایک غلطی نے ہمیشہ کے لیے تاریخ سے ان کے نام غائب کردیئے ۔ آپ کو بھی اگر یہ مقام حاصل ہے تو برہمنی افکارونظریات کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ قوم آپ کو اس وجہ سے بت کی طرح پوجتی ہے کہ آپ کے اسلاف کے اسلام کے لیئے بڑے کارنامے ہیں ۔دنیا کو معلوم ہے کہ آپ لوگوں کے پاس دولت ہے اور انکم ٹیکس کے خوف سے آپ کے لب ہائے مبارک پر تالے لگے ہیں ۔ جس دین اور اور جس قوم کے لیے آج برا وقت آیاہے اسی دین کے نام پر آپ کے پاس دولت وشہرت آئی ہے ۔ تھوڑی دیر کے لیے کہیں آپ کی وجہ سے نوجوانوں کے حوصلے ٹوٹ گئے اور وہ یہ جنگ ہار گئے تو قوم کا کیا ہوگا ؟ کسی کے پاس این آر سی کے لیے دستاویزات ہونگے کسی کے پاس نہیں ہونگے یا ہونگے بھی تو فائنل لسٹ میں نام آنے سے رہ جائے گا ۔ پھر کیا ہوگا ؟ ڈیٹینشن کیمپ۔ جانتے ہیں ڈیٹینشن کیمپ کیا ہے ؟ دنیاوی جہنم کا دوسرا نام ہے ۔ نہ کھانا نہ صاف پانی ، نہ صفائی ستھرائی کچھ نہیں ۔ ایک ایک کمرے میں سیکڑوں لوگ ۔ ادھ مرا جسم نہ باہر سے اندر آنے کی اجازت نہ اندر سے باہر دیکھنے کی آزادی ۔ کہیں اس فائنل لسٹ میں آپ کے نازک مزاج شاہ زادے پھنس گئے تب کیا ہوگا ؟ آپ کی عفت مآب بیٹیاں اس کی شکار ہوگئیں تو کیا ہوگا ؟ کتنے دنوں تک وہ وہاں زندہ رہ پائیں گی ؟ ان کی عزت وآبرو کا کیا ہوگا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کہاں خانقاہ کی تعیش پسندانہ زندگی اور کہاں ڈیٹیشن کیمپ کی تباہ کاریاں ؟ ابھی تک آپ سب خاموش ہیں ؟ آپ نے ایک دوسرے سے بات تک نہیں کی! لگاتار آپ کے کانوں تک آواز پہونچانے کی کوشش کی گئی لیکن آپ لوگ اپنی عیاشی کی زندگی کو مست الست کا نام دے کر بے خود پڑے رہے ۔ یہ مت بھولئے کہ قوم جفاکش ہے ، ان کی اولادیں بھی جفاکش ہی ہونگی ہماری قوم ہر ظلم سہ سکتی ہے۔ ہوش کے ناخن لیجیے ! اپنے ضمیر کو بیدار کیجیے ۔ مجھے پتہ ہے کہ اکثر خانقاہیں اب صرف عیاشی کا اڈہ ہیں ۔ اٹھئیے قوم آپ کی راہ تک رہی ہے ۔ اگر نہیں آسکتے تو ایک دفعہ باہر آکر اعلان کردیجیے کہ “ہم لوگ تمہاری رہنمایئ نہیں کرسکتے تم اپنا رہنما چن لو ” ہمیں پتہ ہے خانقاہیں مجاہدین بھی پیدا کرتی تھیں ، خانقاہیں سیاسی بصیرت سے پر دماغ سنوار کر میدان سیاست میں اپنے افراد بھی بھیجتی تھیں ۔خانقاہوں کا اپنا وجود ہی اپنی قوم کی بقا کے لیے تھا لیکن آپ لوگوں نے اپنی قوم کا وجود اپنی خانقاہوں کے لیے بنا رکھا ہے ۔ لمبے چوڑے چغے پہن کر خانقاہ اجمیر معلی کچھوچھہ ، مارہرہ ، بریلی ، الہ آباد ، مسولی ، رودولی ، پھلواری ، مونگیر، بہارشریف ، شیخ پورہ ، دھام نگر ، گلبرگہ ، ناسک ، ممبئ ، مالے گاؤں ، حیدرآباد ، بے جاپور ، تھانہ بھون ، مبارک پور ، دیوبند ، لکھنئو ، بنارس ، جودھپور ، باندہ ، جبل پور اور دوسرے مراکز صرف پارلیمینٹ کے آگے بیٹھ جائیں تو پورا ملک ہی نہیں پوری دنیامیں یکایک انقلاب آجائے گا ۔ اگر آپ مارے بھی گئے تو شہید ہونگے ۔ نہ مارے گئے تو قوم کی آنے والی نسلیں آپ کے قد موں میں اپنا سر رکھ دے گی ۔
سنی دعوت اسلامی دعوت اسلامی ، جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کہاں ہیں ؟ آپ تو ہر سال لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرلیتے ہیں ۔ کروڑوں روپے آپ سالانہ خرچ کرتے ہیں جس کا تخمینہ تقریبا دو سو کروڑ ہے! کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو جب قوم ہی عزت سے نہیں جی پائے گی تو آپ کے اصول وضوابط کیا گھنٹہ بجائیں گے ؟ آپ کی ذمہ داری کچھ نہیں ہے ؟ کب باہر نکل کر اس دنیا کو دیکھیں گے ؟ قوم آپ سے بھی سوال کررہی ہے ؟ قوم کی زندگی کے لالے پڑے ہیں ۔ ڈری ہوئی اور سسکتی ہویئ قوم کا کویئ کھیون ہار نہیں ہے ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری امت ہر آن سسک رہی ہے ۔ بچے اپنے باپ سے پوچھ رہے ہیں آب کیا ہوگا؟ تاریخ میں سیاست سے دست برداری کا اعلان آپ ہی لوگوں نے کیا تھا ۔ پوری قوم کو مسلک مسلک اور فرقہ فرقہ تو سیکھاتے رہے لیکن سیاست کبھی نہیں سیکھائی ۔ سیاست ایک فطرت ہے ۔ اگر آپ اس کا درست استعمال نہیں کرتے تو وہ غلط رنگ روپ دھارن کرتی ہے ۔ آپ نے سیاست کو مسلمانوں کے لیے عموما اور علماء کے لیے خصوصا عملی طور پر حرام بنادیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فطرت نئی سیاست میں تبدیل ہوگئی ۔ مساجد میں سیاست ، مدارس کی کمیٹی ، اساتذہ ، طلبہ ، باورچی ، چپراسی اور طلبہ کے درمیان سیاست ، تنظیموں میں سیاست ، تنظیموں کی چھوٹی بڑی شاخوں میں سیاست ، عہدے داروں کے درمیان سیاست ۔ خانقاہوں میں سیاست ، سجاد گان کے درمیان سیاست ۔ ان تمام سیاستوں کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم اس مشکل وقت میں بھی میر جعفر اور میر قاسم کا رول ادا کررہی ہے ۔ قومی سیاست ترک کرنے کا عملی طریقہ کس نے سیکھایاتھا ؟ آپ ہی لوگوں نے ۔ اب ایک سوال پوچھوں کہ اس خطرناک سازش کے پیچھے آپ خود چلے تھے یا آپ کو غلط طریقے سے چلایا گیا تھا؟ ۔ قوم کا اتنا زیادہ نقصان ہونے والا تھا اور آپ کی نگاہ یہاں تک نہیں پہونچی تھی ۔ کہیں آپ لوگ بھی برہمنی سازش میں شامل تو نہیں تھے ؟ آج بھی آپ لوگ جو سیاست کررہے ہیں وہ کسی بھی زاویے سے مسلم سیاست نہیں ہے ۔ اسے میں برہمنی سازش کہتا ہوں ۔ تڑپتی ہوئی جوانی ، سسکتا ہوا بچپن ، روتی ہویئ مائیں ، بلبلاتی بہنیں آپ سے پوچھ رہی ہیں کہ آپ کا کوئی فریضہ نہیں ہے؟ میں اس لیے چیخ رہاہوں کہ اگر یہ کالا قانون واپس نہیں ہوا تو ہماری نسلیں تباہ ہوجائیں گی ۔ لیکن آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ؟ آپ کسی برہمن سے دوستی کرکے گل چھرے اڑائیے گا ۔ ہمارا ملک سی آئ اے اور موساد کے قبضے میں ہے ۔اس ملک کے برہمن سمجھ رہے ہیں کہ وہ سی آئ اے اور موساد کا استعمال کررہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں مل کر ہمارے ملک کو انڈونیشیا کی طرح تباہ کرنا چاہ رہے ہیں ۔ انڈونیشیا کی معاشی تباہی کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بالکل یہی کھیل آج سے پچیس سال پہلے انڈونیشیامیں بھی کھیلا گیا تھا ۔ سارا منظر نامہ صاف ہورہاہے ۔ یہ قانون برہمنوں کو دوبارہ برہمن ، نچلی ذاتی کو نچلاپن اورپچھڑی ذاتی کو پچھڑا پن دینے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ اس کے ڈائریکٹ نشانے پر مسلمان ہیں اور ان ڈائریکٹ نشانے پر دلت ، ایس سی ایس ٹی اور اوبی سی ہیں ۔ یہ قانون لانے سے پہلے ملک کی معاشی حالت کو جان بوجھ کر تباہ کرایا گیا ہے کہ جب پیٹ میں دانہ ہی نہیں ہوگا تو حق کی لڑائی لڑے گا کون ؟ پھر برہمن ایک روٹی دے کر سب سے اپنی عبادت کرائیں گے ۔ لیکن آپ لوگوں کو کیا فرق پڑتاہے ؟ آپ بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ ہزار گناہوں کے باوجود لوگ آپ کا تلوہ چاٹیں ۔ شرم کیجیے ۔ مرنے کے بعد اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دیکھائیے گا ۔
’’خطبا ء اور صاحب فتوی‘‘
آپ سب کے نام لوں یا بغیر نام کے آپ کی ایمانی غیرت کو للکاروں ؟ کچھ دن کے لیے آپ کے نام چھوڑ رہاہوں ، آپ لوگوں نے بھی خوب ادھم مچارکھی تھی ، کفر کی سند اور جنت کا ٹکٹ بانٹ رہے تھے ،آج جب وقت پڑا ہے تو کدھر گھس گئے ہیں ؟ آئیں میدان میں ۔ قوم سے ایک رات کی قیمت لاکھوں وصول کرنے والے آپ کیا بیچ رہے تھے ؟ دین ؟ کیا خود دین دار تھے ؟ یا پھر دین کے نام پر اپنی برہمنی خواہش پوری کررہے تھے ۔ رات بھر ایک دوسرے کی برائ کا یہ انجام ہے ۔ آپ کی ایک ایک حرکت دین کے اصل دشمن نوٹ کررہے تھے جب ان کو احساس ہوگیا کہ ہمارے آلہ کاروں نے ہمارا کام کردیاہے ، پوری قوم مسلم آپسی اختلافات کے نشے میں مست ہے ، کسی کا ایمان اور ضمیر زندہ نہیں ہے تو اس نے مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کا اعلان کردیا ۔این آر سی اور سی اے اے ” مسلمانوں کا آخری علاج ہے ” انگریزوں نے جہاد کا فتوی مفتیوں سے چھین لیا تھا ، ہر چیز کے بدلے می انسان کو کچھ چاہیے ہوتاہے ۔مسلم رہنماءوں سے جہاد کا فتوی اور جہاد کی طاقت چھن کر اس کامتبادل تکفیری فتوی اور تفرقہ بازی تھمایا گیا تھا جسے آپ لوگ پوری وفاداری کے ساتھ سوسال تک نبھاتے رہے اور قوم کو بزدل بناکر اس کے مقتل تک لے آئے ۔ اس قوم کی تباہی کے اصل ذمہ دار خانقاہوں کی تعیش پسند شخصیات ، مفتیان فتوی باز اور خطباء تفرقہ باز ہیں ۔
مجھے بعد میں برا بھلا کہ لیجیے گا پہلے قوم کی قیادت سنبھالئے ۔
حق گو ہوں اگرچہ ہوں بڑا گستاخ ، ہماری قوم نے رکھا ہے ہمیشہ آپ کا لحاظ وپاس ۔


























































