تحریر:خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین: تحریک علمائے ہند، جے پور
زندگی کا یہ انجام بیان کرتے ہوئے کلیجہ بیٹھا جا رہا ہے کہ اب ہمارے درمیان ناگور ضلع کی *لاڈنوں* تحصیل کے چیف قاضی *حضرت مولانا سید ایوب اشرفی ہمدانی صاحب* نہیں رہے۔ چند روز قبل اچانک جب یہ خبر ملی کہ قاضی صاحب شدید علیل ہیں اور انھیں لاڈنوں سے بیکانیر شفٹ کیا گیا ہے، تبھی ایک جھٹکا سا لگا اور آج ان کے وصال پر ملال کی جان کاہ خبر نے رہی سہی کسر پوری کر دی جبکہ کورونا کی وجہ سے جنازے میں عمومی شرکت نہ کرنے دینے کی حکومتی بے وفائی نے اس نڈھال کر دینے والے غم پر زندگی بھر کے لیے مہر لگا دی ہے۔ کیا دنیا کی حقیقت یہی ہے کہ عمر بھر کی محبتوں کا فرضی صلہ دینے کے لیے میت کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہو کر دو کلمات خیر بھی نہ پڑھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو اس وبا سے نجات بخشے اور ہمیں اپنی آخرت کا شعور دے۔
کون دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے اور کسے دیر سویر اس دار فانی کو الوداع نہیں کہنا لیکن کچھ ہستیاں وہ ہوتی ہیں جو اپنے نقش چھوڑ جاتی ہیں، قاضی صاحب ایک ایسے ہی مصور اور نقاش تھے، جنھوں نے سماجی، مذہبی اور سیاسی ہر تینوں میدانوں میں اپنے اثرات چھوڑے۔ قاضی صاحب ان لوگوں میں سے تھے، جن سے چھوٹے بڑے، خواندہ ناخواندہ، اہل مذہب، ارباب سیاست اور اہل معاشرت ہر طبقے کے لوگ ملتے، راہ و رسم رکھتے، مشورے اور ہدایات حاصل کرتے اور سب ان سے تاثر لیتے تھے۔ جس طرح قدرت نے انہیں قد کاٹھی کی وجاہتوں سے نوازا تھا، اسی طرح انھیں حسن اخلاق بھی وافر مقدار میں مرحمت ہوا تھا۔ 
فقیر خالد ایوب مصباحی سے ان کے کوئی سات آٹھ سال مراسم رہے۔ یہ تو یاد نہیں کہ ان سے پہلی ملاقات کہاں اور کیوں کر ہوئی؟ البتہ اتنا یاد ہے کہ انھوں نے ہر ملاقات میں اپنی بزرگی کا احساس دلائے رکھا۔ خاندانی وجاہت کے ساتھ وہ تعلقات نبھانے میں ہمیشہ غالب رہے اور یہ ان کا وہ وصف ہے جس کی ان سے ملنے والے پاگل بھی گواہی دے سکتے ہیں۔ان کے حکم پر لاڈنوں شہر کے لیے فقیر نے علما/ ائمہ کا انتظام کیا۔ مسائل شریعت کے لیے تقریباً ہر دو چند دنوں کے بعد رجوع کر ہی لیتے۔ کچھ تحریری فتاوی بھی لیے۔ ملی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے۔ اپنے علاقے کی اجتماعی قربانیاں فقیر کے حوالے کرتے۔ حساب و کتاب میں شفافیت رکھتے۔ جب سے تحریک علمائے ہند بنی پہلے دن سے شریک سفر رہے اور تنظیمی ڈھانچے کے متعلق ہمیشہ مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ اپنے حلقہ ارادت میں فقیر کا تعارف کرواتے اور با اثر لوگوں کو وابستہ کرتے۔ اپنے خانگی مسائل میں بھی فقیر سے مشاورت کرتے۔ تقریبا دو سال پہلے سعودی عرب میں ان کے داماد کا انتقال ہو گیا تھا، جس کے بعد وہ اپنی شہزادی کے مستقبل کو لے کر کافی فکر مند رہا کرتے تھے۔ ایک دن فون آیا اور مشاورت کے بعد فرمانے لگے:میرے پاس کچھ پیسے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ کے حوالے کر دوں، آپ اپنی صواب دید کے مطابق کسی دیانت دار تاجر کو دے دیں اور وہ تاجر ہمیں ماہ بماہ منافع کا خاص فیصد دیتا رہے تاکہ ہمارا کام چلتا رہے۔ در اصل وہ اپنی شہزادی کے لیے مستقل ذریعہ آمد کا انتظام کرنا چاہتے تھے۔
ان سے آخری گفتگو جو شاید میرے سینے میں راز کی حیثیت رکھتی ہے، بیکانیر ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونے کے بعد ہوئی۔ ہوا یوں کہ جب سے ان کی بیماری کی خبر ملی، میں مسلسل رابطے میں تھا اور جس شام انھیں بیکانیر کے *فورٹس ہاسپٹل* میں ایڈمٹ کیا گیا، میں نے انھیں فون لگایا لیکن بات نہ ہو سکی مگر دوسرے دن علی الصباح ان کا فون آیا، آواز میں بھراہٹ اور درد کی کراہ تھی، علیک سلیک کے بعد ان کا پہلا جملہ تھا:
*مفتی صاحب! اب زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں*
میں نے تسلی کے الفاظ کہے اور دل بھرائی کی نا کام کوشش کی۔ کچھ اور باتیں ہوئیں، اس موقع پر انھوں نے پہلی بار دبے لفظوں میں بتایا: *چھوٹا موٹا کورونا ہی ہے*اس کے بعد انھوں نے کہا:
*آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ میرے نام سے وصیت لکھ دیں۔* اتنا سننا تھا کہ میں نے اس بات کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہوئے پھر تسلی کے الفاظ کہے اور پھر میں نے خود ہی پوچھا:*جو آپ فرمائیں گے، میں کردوں گا، بتائیں کس بابت؟ قضات کے متعلق؟* انھوں نے *ہاں* میں جواب دیا اور کہا میرے چھوٹے بیٹے مدنی کے نام لکھ دیں۔ اتنی بات بولنے کے بعد وہ کہنے لگے میں آپ کو ریکارڈ کرکے بھیجتا ہوں اور پھر سلام کے ساتھ ہی فون کٹ ہو گیا۔ 
کچھ دیر بعد انہیں کے فون سے ان کے کسی بھتیجے کا فون آیا اور انھوں نے بتلایا:قاضی صاحب بہت گھبرائے ہوئے ہیں، مسلسل رو رہے ہیں، ان کے پاس فون رہ گیا تھا اور انھوں نے آپ سے بات کر لی اور پھر اتنا کہنے کے بعد انھوں نے بھی فون کٹ کر دیا۔
اس کے بعد بھی انھی کے فون سے کئی بار ان کے بھتیجے سے باتیں ہوئیں لیکن آٹھ سالہ دوستی کے یہ وہ آخری کلمات ہیں، جو ہمیشہ کانوں میں گونجتے رہیں گے اور جب جب ان کی گونج تیز ہو گی، دل کا سکون اچاٹ ہوئے بنا نہیں رہ سکے گا۔
آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، یکے بعد دیگرے ان کی رفاقتیں، کرم نوازیاں اور ان کے ساتھ بیتے لمحات کی ایک طویل فہرست ہے، جو حاشیہ خیال پر مسلسل دستک دے رہی ہے:* جب ملک میں تین طلاق کا مسئلہ چھڑا اور بہت ساری ملی و مذہبی تنظیمیں سیاسی مصلحتوں کا شکار تھیں، فقیر نے بنا کسی بڑے پلیٹ فارم کے اپنے *ماہنامہ احساس* کے تحت جے پور کے کربلا میدان میں *شریعت بچاؤ کانفرنس* کے نام سے ریاستی سطح کی کانفرنس بلائی، جس کی صدائے بازگشت پورے ملک میں سنی گئی اور ہر جگہ کے دردمندوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ہوئی جبکہ یاران حسد نے اس ٹھیٹھ شرعی مسئلے میں بھی میر جعفری مزاج سے کام لیا، قاضی صاحب اس موقع پر بذات خود تشریف لائے، اپنے ساتھ کچھ اور علما کو بھی لائے، مجمع کو اپنے تاثرات و خیالات سے مستفید کیا اور کانفرنس سے پہلے اور بعد میں بھی بھرپور حوصلہ افزائی اور دل بھرائی کی۔* یکم فروری 2018 کو ملک کے مستقبل کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے فقیر نے دیار قدس اجمیر شریف میں ہم خیال، درد مند اور حالات کے رحم و کرم سے اوپر اٹھ کر اپنے بل بوتے پر کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے والے علمائے کرام کی ایک بیٹھک بلائی، جس میں بیشتر تعداد نوجوان یا ادھیڑ عمر علما کی تھی لیکن قاضی صاحب اپنی طبیعت کے مطابق اس گروہ میں بھی اتنے ہی فٹ تھے، جتنے وہ بزرگوں کے درمیان فٹ ہوا کرتے تھے۔ تشریف لائے، مشوروں سے نوازا، آگے کی پلاننگ کا حصہ بنے انجام کار جب وہ میٹنگ تحریک علمائے ہند کی شکل میں تبدیل ہوگئی تو آپ بیکانیر ژون کے صدر، نیشنل باڈی کے رکن رکین اور تحریک کے سب سے بزرگ ساتھی ٹھہرے، جس عہدہ رکنیت پر وہ بیکانیر ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونے تک مسلسل بنے رہے اور اس پورے دورانیے میں اپنے بڑکپن میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
* تحریک نے گزشتہ دنوں ان کی سرپرستی میں لاڈنوں میں واقع جینیوں کے سب سے بڑے مرکز *جین وشو بھارتی* کے منیوں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے لیے انھوں نے ہی وقت لیا، انھوں نے ہی خطوط طے فرمائے اور انھوں نے ہی ڈیلی گیشن کی اگوائی کی۔ اس وفد نے ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ جی کے نام ان جینی رہ نماؤں کو ایک میمورنڈم دیا، جس میں ان جینی مذہبی رہ نماؤں کے واسطے سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ امت شاہ جینی ہیں اور جین مذہب اپنے دعووں کے مطابق اہنسا کا مذہب ہے جبکہ امت شاہ جی کی کوششوں سے *سی اے اے* اور *این آر سی* کے قانون سے بلا واسطہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت نہ صرف یہ کہ شدید متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس ملک میں ان کا وجود ہی چیلنج بنتا جا رہا ہے، ایسے میں جینی مذہب کے مذہبی رہ نماؤں کو چاہیے کہ اپنے اس فولور کو پابند کریں کہ وہ اپنے متشددانہ نظریات سے باز آئے۔
اس وفد اور میمورنڈم کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ ملک بھر میں یہ میسیج وائرل ہو کہ وزیر داخلہ ہندو مت کا فولور نہیں، بلکہ جینی ہے، تاکہ ذات پات اور محض مذہبی جنون میں کسی کی اندھی حمایت کرنے والے احمق ہوش کے ناخن لیں۔
ہم نے اس وفد کے دوران واضح طور پر نوٹ کیا کہ قاضی صاحب نے اپنی زندگی میں دولت بھلے نہ کمائی ہو لیکن الحمد للہ اپنوں اور غیروں کے درمیان یکساں عزت بہت کمائی ہے۔
* ہمارے عزیز دوست عبد اللہ جنھوں نے عیسائیت سے توبہ کرکے اسلام قبول کیا اور پھر اسلام میں آنے کے بعد کئی سال کئی مسلکوں کی ہوا کھاتے رہے، ان کا اپنے اہل حدیث ہونے کے زمانے میں لاڈنوں سے گہرا تعلق رہا، کیوں کہ لاڈنوں جین منیوں کی طرح اس نو پید فتنے کی بھی بڑی پر فتن آماج گاہ ہے۔ اسی دوران ایک روز ان کی ملاقات قاضی صاحب سے ہوئی، قاضی صاحب نے یہ سننے کے بعد کہ انھوں نے اسلام قبول کیا ہے، ان سے غیر معمولی محبت کا اظہار کیا اور اور انھیں 500 روپے کی نذر بھی پیش کی۔ عبداللہ قاضی صاحب کے اس رویے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ آج تک ان کا گن گان کرتے ہیں۔
* کچھ وقت پہلے لاڈنوں سے تھوڑے فاصلے پر واقع قصبہ *نمبی جودھا* میں پروگرام تھا، فقیر کا عزیز مکرم حضرت *مولانا قاری عرفان برکاتی صاحب* کے ساتھ حاضر ہونا ہوا۔ بس اسٹینڈ سے لے کر جلسہ گاہ تک اور پھر وہاں سے روانگی تک قاضی صاحب اپنی تمام بزرگانہ شان کے ساتھ یوں خاطرداری کر رہے تھے، جیسے ہم کسی اور کے نہیں بلکہ خود قاضی صاحب کے مہمان ہوں۔
* ایک موقع پر ان کے صاحب زادے جے پور آئے ہوئے تھے، قاضی صاحب کی ترغیب پر ملنے کے لیے حاضر ہوئے اور ادھر مجھے تاکید تھی کہ میں کچھ نصیحت کروں۔
* جب سے وہ اسپتال میں ایڈمٹ ہوئے، *تحریک علمائے ہند* کی طرف سے دعاؤں اور دعاؤں کی گزارشات کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی سے متاثر ہو کر حضرت مولانا شاہد رضا بیکانیری کے صاحب زادے حضرت مولانا خالد رضا نجمی، جو دونوں باپ بیٹے یوروپ میں رہتے ہیں، نے فقیر سے تفصیل لے کر اپنے بھتیجے عبید الرضا کو ملنے کے لیے بھیجا۔ عبید الرضا بیکانیر کے ایک ہاسپٹل میں جاب کرتے ہیں اور ابھی کورونا کے مریضوں اور ڈاکٹرز کے درمیان برج کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے طبیعت میں قدرے خوش گواری دیکھ کر یہ گزارش کی:
حضور! فورٹس بڑا مہنگا ہاسپٹل ہے، آپ یہاں سے میرے ہاسپٹل میں شفٹ ہو جائیں، ان شاءاللہ دیکھ ریکھ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ یہ سن کر مزاحا فرمانے لگے:
اگر مہنگا ہے تو کیا ہوا، مولانا شاہد صاحب تو کرم فرما ہیں۔ عبیدالرضا نے 500 روپے کی نذر بھی پیش کی اور جانے لگے تو قاضی صاحب نے انھیں جاتے ہوئے وصیت کی: بیٹا! میرے کفن دفن کا اسلامی اصولوں کے مطابق اہتمام کروا دینا۔
انتقال کی شب دیر رات فون کر کے یہ وصیت *مولانا خالد رضا* نے فقیر کو بتائی اور فقیر نے قاضی صاحب کے اہل خانہ تک پہنچانے کی کوشش کی۔
* دوران علاج چار مقامی علما پر مشتمل تحریک علمائے ہند اور تنظیم الائمہ بیکانیر کے ایک وفد نے ہاسپٹل میں تیمار داری بھی کی جس میں حضرت حافظ منیر صاحب، حضرت مولانا جاوید نظامی صاحب، حضرت مولانا ممتاز نعیمی صاحب اور حضرت مولانا اسماعیل امجدی صاحب شریک تھے۔
* کل رات بیکانیر کے دارالعلوم سلیمانیہ رحمانیہ کے منتہی درجات کے متعلم مولانا حسین رضا گھڑسانہ نے یہ میسج کیا:
پرسوں حضرت کی بارگاہ میں سلام پیش کرنے کا موقع ملا تھا، اس وقت آپ اپنے بستر علالت پر تشریف فرما تھے۔ اسی ہاسپٹل میں میرے ماموں بھی تھے تو میں ان سے ملنے جایا کرتا تھا۔ ماموں کے ساتھ دامولائی کے ایک حافظ صابر صاحب تھے۔ ان کو قاضی صاحب نے بلا کر کہا: قرآن کی کوئی سورت سناؤ! تاکہ روح کو کچھ آرام ملے تو انھوں نے سورہ ملک سنائی اور چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر بلایا اور کہا: حافظ صاحب! سورہ یاسین سنا دو تو انھوں نے سورہ یاسین شریف سنائی تو چہرے پر کچھ رونق سی نظر آنے لگی اور پھر اسی دوران سو گئے۔ ماشاء اللہ قرآن سے کافی محبت کرنے والے تھے۔ اللہ اپنے خاص فضل کا حصہ نصیب فرمائے۔ آمین۔ (مولانا حسین، گھڑسانہ)
قاضی صاحب قبلہ کے یہ وہ اوصاف و الطاف ہیں، جو کسی ایک خالد ایوب کے ساتھ خاص نہیں، ان سے ملنے جلنے والے لگ بھگ ہر شخص کا اسی سے ملتا جلتا تاثر سننے کو ملے گا۔ کیوں کہ یہ اخلاق و مروت ان کے ہاں کوئی رسم نہ تھے، جو چہرے دیکھ کر برتے جاتے بلکہ ان کی طبیعت کا حصہ تھے۔ملی مسائل کے تعلق سے کوئی بیٹھک ہوتی، ہر جگہ اپنی نمائندگی درج کرواتے اور معنی خیز تاثرات یا مشوروں سے نوازتے۔ جو تعلقات میں آ جاتا، اس سے خوش خلقی کے ساتھ پوری وفاداری برتتے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جانے والے میں بڑی خوبیاں تھیں، اللہ رب العزت ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور انھیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار قدس میں جگہ دے۔ آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here