محمد رضی احمد مصباحی

اس وقت پورے ملک کی میڈیا،عوام ، طلبہ اور چھوٹے بچوں تک کی زبان پر صرف جواہرلال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)  کی چرچاہے ۔ بھارتی عوام کی اکثریت اپنے ہونہار طالب علموں کے ساتھ کھڑی ہے تو طاقت ور اور پیسے والے برہمن سوچ کے ساتھ،  برہمنی میڈیا رات دن ایک کئیے ہوئیے ہے ۔  دہلی کی سڑکوں پر اسکولی بس میں اسکول جارہے بچے بھی جے این یو کے طلبہ کودیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پارہے ہیں۔

آزاد ہندوستان میں اگر کوئی تعلیمی ادارہ ہے جس نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے تو وہ جے این یو ہے ۔ جے این یو کیا ہے؟  ایک ایسا ادارہ جو غریب اور محنتی طالب علموں کے لیے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی خوشنما جنت ہے ، مظلوموں کی  پشت پناہ ، ظالم کے سامنے ایک مظبوط دیوار ، دانش وروں کا کھلیان ، علم کی آزاد دنیا کی بھارت میں سب سے تابناک کائنات ، سیکولر مزاجی کا موجیں لیتا ایک گہرا سمندر ، جو اپنے شاہین صفت ہونہاروں کو حوصلہ دیتا ہے ،بات کرنے کی تمیز سیکھاتا ہے ، ظالم کی آنکھ میں آنکھ ملانے کی  جرات عطا کرتاہے ۔ایک ایسا ادارہ جس نے اپنے وطن عزیز کو سب سے زیادہ سیاست داں اور قابل سیاست داں دیئے، جس نے اپنے مادر وطن کی گود ماہرین  معاشیات سے بھر دی ، جس نے ہمیشہ تعلیمی میدان میں سارے تعلیمی اداروں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔جس کی لال دیواریں تعصب کی تعفن زدہ ہوا سے پاک رہی ہے ،جہاں کی فضاء ملک دشمن عناصر کو کبھی راس نہیں آئ ۔جس کا وسیع وعریض ایک ہزار ایکڑ کا علاقہ ہر دن اپنے شاہین  کو پرواز کرنے کے لیے نئے آسمان مہیا کرتاہے ۔جس عظیم ادارے میں برہمنیت پہونچ کر اپنی سانسین گننے لگتی ہیں ۔ آج اس عظیم علمی قلعے پر برہمنوں نے جھنڈ کی شکل میں حملہ کردیاہے۔

بہت سے احباب اس تازہ معاملے کو یونیورسٹی انتظامیہ  اور طالب علموں کے درمیاں کا معاملہ کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے ۔میں اسے نہیں مانتا کہ یہ یونیورسٹی کا اندرونی معاملہ ۔ اس میں سینٹرل گورنمنٹ پوری طرح سے ملوث ہیں اور یہ سارا ڈرامہ سینٹرل گورنمنٹ کے اشارے پر ہورہاہے ۔  اگر یہ معاملہ یونیورسٹی کا ہے تو بھارت کا برہمن میڈیا اس قدر کیوں بھونک رہاہے اور وہ لوگ کیوں گلا پھاڑ رہے ہیں جو پارلیمنٹ میں جانوروں کی طرح لڑنے کے ماہانہ ایک لاکھ سے زیادہ سیلری لیتے ہیں ۔بھتہ کی رقم الگ ہے۔  پھر رشوت خوری کے جو الگ بازار سجائے ہیں ان شریفوں  نے وہ الگ ہے ۔

جے این یو کی فیس بڑھانے  کی تائید وہ لوگ کررہے ہیں جو مفت میں ہر ماہ ملک کا لاکھوں روپیہ جائز طریقے سے  ہضم کرجاتے ہیں اور ناجائز طریقے سے تو خیر پورا ملک ہی ان برہمنوں نے ازدہا بن کر نگل لیا ہے ۔ میں یہاں پسماندہ  ذاتی ، پچھڑی ذاتی ، دلت اور مسلمانوں سے ایک گزارش کرنا چاہونگا کہ اگر اپنا وجود بچانا ہے اور ملک بھی بچانا ہے تو ان فرقہ پرست طاقتوں سے  دودوہاتھ کرنے کو تیار ہونا ہوگا ورنہ یہ یاد رکھو کہ ملک ایک دفعہ پھر ویدک دور میں خفیہ طریقے سے داخل ہورہاہے ،حالا نکہ یہ مشکل ہے لیکن اسی کی تیاری کے لیے لمبی پلاننگ کی جارہی ہے ۔مل کر ان نفسیاتی مریضوں سے نپٹ لو پورے ملک میں شانتی پھیل جائے گی اگر ابھی بروقت ان بے لگام ذہنی مریضوںکو لگام دینے میں کامیاب نہ ہوسکے تو تمہاری آنے نسلیں ان کا تلوہ چاٹ کر گزارہ کریں گی ۔

ہماری بھارتی  پولس جو ہر جگہ اپنے بھائیوں اور بچوں کے ساتھ  دشمنوں جیسا سلوک کرتی ہے ، ان کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے جیسے کتنے غریب پولس والوں کے بچے ان اداروں میں اپنا خواب پورا کرنے پہونچتے ہیں اگر ہماری پولس بھی ان بچوں کے ساتھ سیاسی مداریوں جیسا جیسا برتاءکر یگی تو پھر یہ غریب بچے کہاں جائیں گے ؟  پولس اہل کارو ! یہ ہمارے ملک کا مستقبل ہیں جن کو صحیح اور غلط کی پہچان ہے ۔انہیں طعنہ دیاجاتا ہے کہ یہ ٹیکس کے پیسے سے پڑھتے ہیں یہ صحیح ہے کہ یہ طلبہ ٹیکس کے پیسے سے پڑھتے ہیں اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ جب یہ اچھی نوکریوں  پر پہونچتے ہیں تو ایمانداری کے ساتھ سرکار کو پورا پورا ٹیکس ادا  بھی کرتے ہیں ۔ہمارا سوال یہ ہے کہ ٹیکس کے پیسے سے  تعلیم کا انتظام نہ کیا جائے ؟ محکمہ صحت میں بہتری کے لیے کام نہ کیا جائے ؟ بے روزگاری دور کرنے کے لیے ان پیسوں کا استعمال نہ کیا جائے تو کیا ای وی ایم میں گھپلہ کرکے پارلیمینٹ پہونچنے والے چوروں، اچکوں ، بدمعاشوں اور عیاش نیتاؤں کو بانٹ دیاجائے؟ پارلیمینٹ میں پہونچنے والوں کو جو تنخواہ اور کھانے سے لیکر بنگلا گاڑی اور دنیا بھر کی چھوٹ ملتی ہے کیا وہ ٹیکس کا بے جا استعمال نہیں ہے؟ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے یہ شریف زادے جو پیمینٹ لیتے ہیں کیا وہ ٹیکس سے نہیں آتا ہے ؟  اگر ملک دشمن عناصر کی تنخواہ کے ساتھ اس کے سارے نخرے اسی ٹیکس کے پیسے سے برداشت کیے جاتے ہیں تو طالب علموں پر خرچ کرنے میں درد زہ کیوں لاحق ہوتا ہے ؟  جب بھی ملک میں ماحول گرم رہے اور سیاسی عملہ خاص کر ہندتوادی دماغ آگ میں تیل ڈال رہے ہوں   ہو تو  سمجھ جائیں کہ یہ فرقہ فرست لوگ کوئی بہت ہی اہم چیز اپنی سورگ اسرائیل بھیج رہے ہیں ۔  یہ سب کوئی حادثہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ سارا ڈرامہ سیاسی مداریوں کی کھوپڑی کا  پری پلان ہوتاہے۔

احتجاج کے دوران پولس نے طالب علموں پر جس طرح لاٹھی چارج کیا ، طلبہ کو زخمی کیا ، بچیوں کے ساتھ بدسلوکی کی ، آنکھ سے معذور بچے تک کو نہیں بخشا یہ اپنے آپ میں نہایت شرم ناک ہے ۔ پولس کے اعلی افسران کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے ۔ طلبہ اپنے حق کے لیے جائز طریقے سے اپنی آواز  اٹھارہے تھے ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب  گنڈہ گردی  اپنے عروج پر ہے اور یہ سیاسی  داد گیری زیادہ دنوں تک نہیں چلنے والی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here