ملک کے پُر آشوب حالات اور دو اہم سیاست داں
تحریر _محمد قاسم ٹانڈؔوی
مجموعی اعتبار سے ملک کے موجودہ حالات سے ہر ذی شعور اور بیدار ذہن شخص واقف ہے؛ اس لئے ملکی حالات سے پردہ اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اسی طرح صوبائی و مرکزی حکومت میں بیٹھے ہمارے حکمراں کس نظریہ اور مشن کے تحت حکمرانی کی ڈور ہلا رہے ہیں؛ ان کی بابت بھی کچھ خاص لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بےچینی اور کرب کو بھی معاشرہ کی ہر آنکھ کھلے طور پر محسوس کر رہی ہے اور جیسے جیسے ہمارے ملک کے حالات کو پُرآشوب اور پر فتن لہروں کے حوالے کئے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں یا جن ناپاک عزائم کے تحت ملک کو تخریب کاری کی راہ پر گامزن کیا جا رہا ہے، ان سب کا بھی جائزہ اور مشاہدہ کرنے کے بعد وطن عزیز کی آزادی اور سلامتی کی فکر رکھنے والا ہر صائب الرائے، اور حالات شناس افراد شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور اس کے خلاف آواز بھی بلند کر رہے ہیں۔ بلکہ جن لوگوں نے آزادی کے بعد اس ملک عزیز میں آنکھیں کھولی ہیں اور انہوں نے مختلف جماعتوں کو ملک پر حکمرانی بھی کرتے دیکھا ہے؛ ان میں سے ہر طبقہ اور کمیونٹی سے وابستہ انصاف پسند اور تعصب سے پاک ذہن و دماغ رکھنے والے افراد وقفہ وقفہ سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ: مئی/2014 کے مرکزی انتخاب کے نتائج کے طفیل جب سے حکمراں جماعت کو یکطرفہ اقتدار حاصل ہوا ہے، اس وقت سے ملک میں ایمرجنسی کے دنوں سے زیادہ حالات خراب ہیں اور یہ کہ ملک ایک طرح سے دو راہے پر کھڑا ہے۔
کہنے کو تو اس حکومت کا دعوی “سب کا ساتھ سب کا وکاس” اور ہندوستانی آئین و دستور کی پاسداری پر مبنی حکمرانی کرنے کا تھا، مگر جیسے جیسے یہ جماعت اقتدار میں خود کفیل اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی ویسے ویسے ہمارے حکمرانوں کے مزاج میں مطلق العنانی اور ڈکٹیٹر شپ گھر کرتی چلی گئی اور ملک کے بیشتر صوبوں میں حکمراں جماعت کے اقتدار کا جھنڈا لہرانے لگا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار و حکمرانی کی اس لہر میں دور دور تک نہ تو کوئی اسے روک ٹوک کرنے والا رہا اور نہ ہی کوئی اس کا سامنا کرنے والا رہا۔ رہا اپوزیشن کا معاملہ تو وہ پہلے ہی باہمی انتشار کا شکار اور عدم قیادت سے جوجھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے اول روز سے جن متنازعہ بلوں اور انتشار سماج پر مبنی اسکیموں کو ایوان بالا میں پیش کرتی رہی؛ بآسانی وہ ان سب کو پاس کراتی رہی اور اس وقت حزب اختلاف اپنی طاقت و صلاحیت منوانے میں ناکام رہا۔ چنانچہ نوٹ بندی سے لےکر دفعہ 370 کی منسوخی تک اور طلاق بل سے لےکر کسان مخالف بل جو بھی اس حکومت نے ابھی تک ایوان میں پیش کئے ہیں؛ ان میں وہ سو فیصد کامیاب رہی اور اپوزیشن ان کو روکنے یا منسوخ و موقوف کرانے میں ناکام رہا ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اپوزیشن میں کوئی دم خم نہیں ہے جو حکمراں جماعت کا سامنا کر سکے اور اسے اس کے منصوبوں سے باز رکھ سکے۔ اور ایسا کرتے کرتے حکمراں جماعت کے دوسرا ٹرم بھی آدھے سے زیادہ گزر چکا ہے۔
یہاں تک تو بات تھی حزب اقتدار اور حزب مخالف جماعتوں کی کارکردگی کی؛ اب بات کرتے ہیں مسلم لیڈران کی، جن میں سرکردہ اور سرفہرست دو اہم اور مضبوط و کامیاب لیڈر شپ پر مبنی نام شامل تحریر کئے جاتے ہیں۔
1)مجلس اتحاد المسلمین (MIM) کے صدر محترم جناب بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب کا ہے، جو حلقہ حیدرآباد سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتے آرہے ہیں اور وہاں کے عوام پر اپنا اچھا خاصا اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنی ایک آواز اور صدا پر لاکھوں لوگوں کو پلک جھپکنے سے پہلے اکھٹا اور جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اچھی اسپیچ کے مالک و حامل ہیں اور وہ اپنی بیان بازی میں کھلے عام حکومت کے کام کاز پر نقد اور منفی تبصرہ کر لیتے ہیں۔ ایوان میں بھی وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کا بارہا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور ٹی وی ڈبیٹ میں بھی وہ کھلے عام موڈی موڈی اور یوگی یوگی کہہ کر ان کی حکمرانی اور سیاست پر نشانہ سادھتے رہتے ہیں۔ اور ایسا وہ بلاخوف و خطر کہتے اور کرتے ہیں، اس دوران انہیں نہ تو اپنی جان کا کوئی خطرہ اور اندیشہ رہتا ہے اور نہ ہی عام ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں ان کو فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ: ملک کے دیگر خطوں میں آباد مسلم عوام کا کیا ہوگا اور ان کی ان باتوں کا ان پر کیا اثر پڑےگا؟ وہ اپنے بیان و خطاب میں کوئی ایک بات فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے یا شرانگیزی پر مبنی بولتے ہیں تو فاشسٹ طاقتیں جو ہمیشہ ایسے ہی موقع کے تلاش و انتظار میں بیٹھی ہوتی ہیں، تو وہ فورا عملی میدان میں اتر جاتی ہیں اور کھلے عام ہندی مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے لگتی ہیں یا پھلے سے منصوبہ بند کھیل کھیلنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی ایک نہیں سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں؛ کہ:
“جب شرانگیزی اور فتنہ فساد برپا کرنے والوں کو ہمارے بعض لیڈران کی طرف سے کوئی موقع ملا ہو اور انہوں نے اس کے ردعمل میں کھل کر فرقہ پرستی کا ننگا ناچ نہ کھیلا ہو”؟ فرقہ پرست طاقتیں تو اسی بات کی فراق و جستجو میں سرگرداں رہتی ہی ہیں کہ کب انہیں کوئی قول و فعل کے ذریعے چھیڑے اور اس کے بعد وہ اپنا کھیل کھیلیں اور ملک کے امن و امان کو آگ لگائیں؟
اس فہرست میں دوسرا اہم نام جناب محمد اعظم خاں صاحب کا ہے؛ جو آج کل بستر مرگ پر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور گذشتہ ڈیڑھ برس سے اپنے جواں سال بیٹے عبداللہ اعظم (ممبر اسمبلی) کے ساتھ بریلی جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ (باقی آئندہ)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here